صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


اقبال کا تصورِ فن

ڈاکٹر راشد حمید

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

                                    اقتباس

    انیسویں صدی کی آخری چار دہائیوں میں مغرب کی علمی اور ادبی دنیا میں فن برائے فن اور فن برائے مقصد کے رجحانات اور بعد ازاں کسی حد تک دبستان بھی سامنے آئے۔ فن کے ان تصورات میں الہامی، نقالی، فطرت پرستی، تاثریت اور اظہاریت کے حوالے بے حد اہم ہیں اور پھر ٹین، مارکس، فرائیڈ کے تصورات بھی عہد جدید کے تصورِ فن کا ناک نقشہ بنانے کے ضمن میں اپنا حصہ ڈال چکے ہیں ۔ فن برائے فن کے حامیوں کا کہنا تھا کہ فن بذاتہٖ آزاد ہے اس لیے یہ کسی بھی قسم کے مقصد کے حصول کا ذریعہ کیسے ہو سکتا ہے۔ بعض فن کاروں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ فن اپنی ذات میں خود مقصد ہے لہٰذا فن کے ہوتے ہوئے دوسرے کسی مقصد کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ میاں محمد شریف لکھتے ہیں :

’’فن برائے فن کے علم بردار حسن فطرت کے قائل نہیں اور ان کے نزدیک یہ تو نہایت ادنیٰ درجہ کی شئے ہے۔ فلوبئر، گوتیر، آسکر وائلڈ اور بودلیئر اس حقیقت کو خاطر میں نہیں لاتے، کیوں کہ ان کے خیال میں مناظر فطرت کی رنگینیاں یکسانیت اور تھکا دینے والی کیفیت کی حامل ہیں ۔ ‘‘ ۱

    فن برائے فن کا رجحان اور بعد میں اس کی تحریکی صورت دراصل ایک انتہا پسندانہ انفرادیت کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے تھی۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ چوں کہ یہ تحریک فکری حوالے سے انحطاط کے دور کی پیداوار تھی اس لیے اس نے دور ماضی کی تمام تر جمالیات کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ اس کے برعکس رویّہ، فن برائے مقصد کا رجحان تھا۔ اگرچہ اس رویے کی شناخت انیسویں صدی کے نصف آخر میں کی گئی اور اس کے بعد اس کے لیے اصطلاح وضع کی گئی مگر یہ دبستان تو ہمیشہ سے رہا ہے۔ ہر بڑے شاعر، مفکر، صوفی اور عالم کے نزدیک فن، زندگی کی ترجمانی کا دوسرا نام ہے۔

    جس زمانے میں علامہ محمد اقبال نے شعر گوئی کا آغاز کیا، یہ دونوں دبستان اپنے اپنے عروج کو پہنچ چکے تھے۔ چوں کہ علامہ محمد اقبال ایک با مقصد زندگی کے قائل تھے اس لیے انہوں نے ثانی الذکر دبستان سے استفادہ کیا۔ انہوں نے فن کو ایک مقصد اور نصب العین کے لیے برتا اور اس کی معنوی فضا کو زندگی کا لازمہ بنا دیا۔ وہ افلاطون کی طرح بعض نوعیت کے شاعروں کو گردن زدنی جانتے تھے اور بقول خلیفہ عبدالحکیم:’’اس تعزیر کی وجہ بھی تقریباً وہی ہے جو افلاطون نے بیان کی ہے۔ ‘‘۲

    علامہ محمد اقبال نے نظم و نثر دونوں میں فنون لطیفہ کی جملہ اقسام پر تنقید کی ہے اور انہیں زندگی سے قریب تر لانے کا جتن بھی کیا ہے۔ مثلاً علامہ محمد اقبال ڈرامے کے محض اس لیے مخالف تھے کہ اس سے انسانی خودی مجروح ہوتی ہے۔ جب ایک کردارکسی دوسرے کردار کے لباس میں جلوہ گر ہوتا ہے تو عارضی نقالی اس کے احساس ذات کے لیے بمنزلہ سم قاتل کے ہے۔ انہوں نے اپنی ایک نظم ’’تیاتر‘‘ میں اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے، اس نظم کے یہ دو شعر ملاحظہ کریں :

حریم تیرا، خودی غیر کی، معاذاللہ

دوبارہ زندہ نہ کر کاروبار لات و منات

یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے

رہا نہ تو، تو نہ سوز خودی نہ ساز حیات

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔