صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
اردو انشائیہ اور بیسویں صدی کے اہم انشائیہ نگار
ایک مطالعہ
ڈاکٹر ہاجرہ بانو
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
انشائیہ کے خد و خال (اقتباس)
ادب کی تاریخ میں صنف انشائیہ کے خد و خال واضح طور پر نہیں ملتے۔ لیکن جس وقت مغرب میں مونٹین اور بیکن فرانس میں باقاعدگی کے ساتھ انگریزی انشائیے لکھ رہے تھے اسی وقت ملا اسد اللہ وجہی نے عہد قطب شاہیہ میں ’’سب رس‘‘ جیسا شاہکار پیش کیا۔ وہ دور صوفیانہ تحریریں، اقوال، ملفوظات، داستانیں اور مثنوی کا دور تھا۔ ہم سب رس کو انشائیہ کے طور پر اس لیے تسلیم کرتے ہیں کہ اس میں انشائیہ کی زیادہ تر خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ یا دوسرے معنوں میں اسطرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ سب رس کے اُسلوب کی جدت، شگفتگی اور سادگی، ذات و کائنات کا انکشاف، لفظوں کی غنائیت اور موسیقیت سب اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ یہ انشائیہ ہے۔ اور ایسا انشائیہ جس کی بنیاد سولہویں صدی میں رکھی گئی اور آنے والے ادباء اور انشائیہ نگاروں کو ایک سمت عطا کی گئی۔ ہم بخوبی اس بات کا اندازہ کرسکتے ہیں کہ انشائیہ کی صنف سولہویں صدی میں اپنے خوش رنگ پیرہن کے ساتھ موجود تھی۔ لیکن یہ بات الگ ہے کہ اسے باقاعدہ طور پر ’’انشائیہ‘‘ کا نام نہیں دیا گیا تھا۔ ملا وجہی نے بھی ’’سب رس‘‘ کے بعد ایسی کوئی تصنیف اردو ادب کو نہیں دی۔
سترہویں صدی میں اردو زبان پر ایک طرح سے گہن لگ گیا تھا۔ اگر اردو نظر بھی آئی تو بازاروں اور عوامی جگہوں پر اپنا دم توڑتی نظر آئی۔ اس کی وجہ اس وقت کے سماجی، معاشی اور سیاسی حالات تھے۔ اس بات میں دو رائیں نہیں ہوسکتیں کہ ہر زبان کے فروغ اور پستی میں سیاسی، سماجی اور معاشی حالات بہت اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لیے جب زبان ہی مر رہی تھی تو انشائیہ کہاں سے پرورش پاتا۔ ان حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے سید صفی مرتضی رقمطراز ہیں :
’’اول تو یہ (اردو) بازاروں میں پھرتی رہی اور صرف عوام سے سابقہ رہا۔ پھر بزم شعراء میں دخیل ہوئی۔ نغمہ و موسیقی کی تانیں اسے لے اڑیں۔ ایک طرف خانقاہوں کی مقدس فضا میں سجی و سجادہ سے دست بوس تھی تو دوسری طرف درباروں میں راش و رنگ کی ندیم۔ شاعری پر قابو پا لینے کے بعد نثر کے میدان میں قدم رکھا تو داستانوں، فقہ و تصوف کے رسالوں میں نظر آنے لگی۔ جیسا ماحول پایا اسی سے ساز کرنے لگی جیسا اس وقت کا مزاج تھا اور جو اس کی دلچسپیاں تھیں ان ہی میں یہ بھی شریک تھی۔ اس وقت نہ علمی ماحول تھا اور نہ اس ماحول کو بدلنے کی کوشش کے آثار کسی طرف سے ظاہر ہو رہے تھے۔ پھر اردو زبان ہی کیا کرتی اور مضمون نگاری اس میں کہاں سے شروع ہوتی۔ ‘‘
٭٭٭