صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ابنِ انشاء اور خلیل الرحمٰن اعظمی
ابنِ انشاء، خلیل الرحمٰن اعظمی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
خطوط
۲۳/۱/۶۰
ڈیر خلیل،
تم لوگ بڑے بے وفا ہو۔
میں
نے سنا ہے تم یارانِ سرپل نے غالب نام کا کوئی پرچہ نکالا ہے اور آج کل اس
میں دھومیں مچا رہے ہو۔ حیرت ہے تم لوگوں کو میری یاد نہیں آئی جو تمھاری
شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔
کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ قریب قریب
اسی وقت یہاں بھی ابال اٹھا اور ایک پندرہ روزہ کھلنڈرے پرچے کا ڈول پڑا۔
پرچہ کراچی سے نکل رہا ہے اور بطور ایڈیٹر میرے بھائی کا نام رہے گا لیکن
ہوگا تمھارا پرچہ۔ تمھارے ذمے بہت کام ہیں جو تمھیں کسی دن بیٹھ کر لکھوں
گا۔ پہلا پرچہ اس ماہ کے تیسرے ہفتے آنا تھا لیکن مجھے چند روز کے لئے
مشرقی پاکستان جانا ہے، کوئی بیس دن کے لئے۔ کاش علی گڑھ راستے میں پڑتا
اور ہم لوگ ملاقی ہو لیتے۔ پلین دہلی ضرور رکے گا لیکن کب کیسے؟ یہ معلوم
نہیں۔ اگر ذرا سا بھی اس میں امکان ملاقات کا رہتا تو میں تمھیں ضرور
تکلیف دیتا۔ اگرچہ فائدہ اس میں سوائے دیدار کے خاک نہ ہوتا۔
تو
میرے بھائی اب پرچے کے سارے پرانے شمارے بھیجو۔ سنا ہے کوئی انجمن بنا کر
تم دساور کے ادیبوں کو بلاتے ہو اور خوب خوب ہفتے منائے جاتے ہیں۔ مجھے
تفصیل معلوم ہو تو ہم یہاں یہی کریں۔ اس کے علاوہ میں نے آج کے ادیب کے
نام سے ایک سلسلہ کتب پلان کیا ہے۔ بمبئی سے ادب کے معمار کے سلسلے میں
کتب نے کتابیں شائع کی تھیں، یہ ان سے زیادہ elaborate ہوگا۔
امین
اشرف صاحب کا خط آیا تھا۔ میں نے ان کو اس کا جواب دیا اور علی گڑھ میگزین
کے لئے کچھ بھیجنے کا وعدہ بھی کر لیا۔ لازمی کوشش کر رہا ہوں کہ اس وعدے
کو نبھاؤں۔ اگرچہ آج کل شعر کے خیمے خاک ہو رہے ہیں اور نغموں کی طنابیں
ٹوٹ رہی ہیں۔
میں ڈھاکے جا رہا ہوں گلڈ کے پہلے سالانہ جلسے
میں شرکت کے لئے۔ تمھارے ہاں جو ادیبوں کی تنظیم بننے کی خبر تھی اس کا
کیا پوا۔ اس کے منتظم بچارے کم سامان لوگ ہیں۔ اچھا یہ ہوتا کہ ایسا
کنونشن علی گڑھ میں ہوتا۔ پھر اس کی کامیابی یقینی تھی۔ اب ہندوستان بھر
میں علی گڑھ ہی اردو کا مرکز رہ جائے گا، خدا کرے کہ رہے۔ آج یہ سن کر
افسوس ہوا کہ مشرقی پنجاب جو اردو کا گہوارہ تھا، اردو ریجنل زبان نہ مانی
جائے گی۔
اب بس خط مطلوب ہے۔ رشّی کا کیا حال ہے۔ آج کل
ہندوستان میں فیملی پلاننگ کا زور ہے۔ لیکن مسلمان لوگ کہاں باز آتے ہیں
اس لئے پوچھوں گا اعظمیوں کی آبادی میں اضافہ ہوا کوئی؟
شہر یار اور دوسرے لوگوں کو سلام۔
ابن انشا
۔
کراچی
۱۱/۴/۶۰
خلیل، میں تم سے بہت ناراض ہوں۔
سبزہ زار ہیں سونے
کیا بھلا دیا تو نے؟
شادی
سبھی کی ہوتی ہے۔ آج تم کل ہماری باری ہے۔ بچے بھی کوئی ان ہونی بات نہیں۔
ہاں تم نے اس کے لئے باقی ساری دنیا کو تیاگ دیا ہو تو مجھے بھی تیاگ دو۔
اگر باقی سارے علائق سے راہ و رسم بدستور ہے تو شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
اب
ہم تم کو کیا بتائیں اس بیچ میں ہم پر بھی کیا سانحے گزرے۔ کچھ شعر کے
خیمے بھی راکھ ہو کر رہ گئے ہیں۔ پچھلی کمائی پر کب تک گزارہ ہوگا۔ یار
ہماری نسل کے ساتھ کچھ زمانے نے اچھی نہیں کی۔ جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم
تھا خزاں کا۔ خیر تمھارے ہمارے موسم میں قدرے فرق ہے۔ لیکن مہربانی اور
نامہربانی کا گلہ یکساں ہے۔ اب اگر تم منھ سے گھنگھنیاں نکالو تو بات بنتی
ہے۔ تمھارے دوست کنور اخلاق شہریار دور بہت بھاگیں ہیں ہم سے ورنہ غالب
بھیجتے۔ اگر وہ تم سے قریب ہیں تو ہم سے دور کیوں ہیں۔ شاید غالب سے
تمھاری خیر خیریت کی خبر ملتی رہتی۔۔۔۔۔یہ جو ناگپور میں کانفرنس ہونے کو
ہے تم اس میں جا رہے ہو، خدا کرے کامیاب ہو اگرچہ وہ لوگ بے سر و ساماں
نظر آتے ہیں۔ کاش اس کا ڈول علی گڑھ میں پڑتا۔
اور کچھ نہیں۔ اور کچھ نہیں۔ تم نہیں سنتے تو باتیں ہماریاں اور کون سنے گا۔
رشّی بیگم کو سلام اگرچہ وہ ہماری رقیب ہیں۔ تمھاری آل اولاد کو پیار۔
ابن انشا
***