صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


انسان ۔۔۔قرآن کی نظر میں 

ڈاکٹر مرتضیٰ مطہری

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

منفی اقدار

    قرآن کریم میں اسی انسان کی شدید مذمت اور ملامت بھی کی گئی ہے:

    ۱۔ ’’وہ بہت ظالم اور بہت نادان ہے۔‘‘( سورہ احزاب آیت ۷۲)

    ۲۔ ’’وہ خدا کے بارے میں بہت ناشکرا ہے۔‘‘( سورہ حج آیت ۶۶)

    ۳۔ ’’جب انسان اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے تو سرکشی کرتا ہے۔‘‘    ( سورہ علق آیت ۶ ۷)

    ۴۔ ’’انسان بڑا جلد باز ہے۔‘‘( سورہ اسراء آیت ۱۱)

    ۵۔ ’’جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو لیٹے بیٹھے اور کھڑے کھڑے پکارنے لگتا ہے پھر جب اس کی وہ تکلیف اس سے دور کر دیتے ہیں تو پھر وہ اپنی پہلی حالت میں آ جاتا ہے گویا جو تکلیف اس کو پہنچی تھی اس کو دور کرنے کے لئے اس نے کبھی ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔‘‘( سورہ یونس آیت ۱۲)

    ۶۔ ’’اور انسان بڑا تنگ دل ہے۔‘‘( سورہ اسراء آیت ۱۰۰)

    ۷۔ ’’انسان سب چیزوں سے زیادہ جھگڑالو ہے۔‘‘(سورۂ کہف آیت ۵۴)

    ۸۔ ’’وہ کم ہمت پیدا کیا گیا ہے۔‘‘( سورہ معارج آیات ۱۹۔۲۱)

    ۹۔ ’’جب اس کو برائی پہنچے تو وہ مضطرب ہو جاتا ہے اور جب اس کو بھلائی پہنچے تو وہ بخل کرنے لگتا ہے۔‘‘( سورہ معارج آیات ۱۹۔۲۱)

حسین یا بدصورت


    یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا انسان قرآن حکیم کی نظر میں بدصورت مخلوق بھی اور حسین مخلوق بھی ہے وہ بھی بہت حسین اور بہت بدصورت؟ کیا وہ دو طرح کی فطرتوں کا حامل ہے یعنی اس کی آدھی فطرت نور ہے اور آدھی ظلمت؟ اور ایسا کیوں ہے کہ قرآن حکیم اس کی بہت زیادہ تعریف بھی کرتا ہے اور بے انتہا مذمت بھی۔

    حقیقت یہ ہے کہ انسان کی تعریف اور مذمت اس سبب سے نہیں کہ وہ دو فطرتوں کا حامل ہے گویا اس کی ایک فطرت قابل تعریف اور دوسری قابل مذمت۔ قرآن حکیم کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان اپنی استعدادی قوت کی بناء پر تمام کمالات کا حامل ہے اور اس کا لازم ہے کہ وہ ان کمالات کو قوت سے فعل میں لائے اور یہ خود انسان ہی ہے جو اپنی ذات کا معمار ہے۔

    انسان کے ان کمالات تک پہنچنے کی اصل شرط ’’ایمان‘‘ ہے۔ ’’ایمان‘‘ ہی سے اس میں تقویٰ نیک عمل اور راہ خدا میں کوشش کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ’’ایمان‘‘ ہی کے ذریعے سے علم نفس امارہ کے ہاتھ میں ناجائز ہتھیار کی صورت سے نکل کر مفید ہتھیار کی صورت اختیار کرتا ہے۔

    پس حقیقی انسان جو کہ ’’خلیفة اللہ‘‘ ہے مسجود ملائک ہے دنیا کی ہر چیز اسی کے لئے ہے اور وہ تمام انسانی کمالات کا حامل ہے وہ ’’انسان باایمان‘‘ ہے نہ کہ ’’انسان بے ایمان‘‘ اور ناقص ہے۔ ایسا انسان حریص اور خونریز ہے وہ بخیل اور خسیس ہے وہ کافر ہے اور حیوان سے پست تر۔

    قرآن حکیم میں ایسی بھی آیات ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کون سا انسان ہے جس کی تعریف کی گئی ہے؟ اور وہ کون سا انسان ہے جس کی مذمت کی گئی ہے؟ ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انسان جو خدا پر ایمان نہیں رکھتا انسان حقیقی نہیں ہے اگر انسان اس حقیقت یگانہ سے تعلق قائم کر لے جس کی یاد سے دل آرام پاتا ہے تو وہ کمالات کا حامل ہے اور اگر وہ اس حقیقت یگانہ یعنی خدا سے جدا ہو جاتا ہے تو وہ ایک ایسے درخت کی مانند ہے جو اپنی جڑوں سے جدا ہو چکا ہے۔

    اس موضوع پر ہم ذیل میں آیات بطور نمونہ پیش کرتے ہیں:

    والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین آمنوا و عملو الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا باالصبر

    ’’قسم ہے زمانے کی! بے شک انسان خسارے میں ہے مگر جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کرتے اور صبر و استقامت کی تاکید کرتے رہے۔‘‘( سورہ عصر ۱)

    ولقد ذرانا لجھنم کثیرا من الجن والانس لھم قلوب لا یفقہون بہاولہم اعین لا یبصرون بھا ولھم آذان لا یسمعون بھا اولئک کالانعام بل ھم اضل

    ’’اور ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ان کا انجام جہنم ہے ان کے دل ہیں وہ ان سے سمجھتے نہیں اور آنکھیں ہیں وہ ان سے دیکھتے نہیں اور کان ہیں کہ وہ ان سے سنتے نہیں وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔‘‘    ( سورہ اعراف آیت ۱۷۹)

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول