صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
علم الانسان
روبینہ نازلی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
انسان پر جدید سائنسی تحقیقات
سائنسدان عرصہ دراز تک مادی جسم کو ہی ً انسان ً قرار دیتے رہے۔ وہ صدیوں سے یہی کہتے چلے آ رہے تھے کہ مادی جسم ہی آخری حقیقت ہے۔
لہذا برسوں جدید سائنسی تحقیقات کا مرکز مادی جسم ہی رہا اور سائنسدان برسوں مادی جسم پر تحقیق کر کے مادی جسم کے راز افشاں کرتے رہے جس کے نتیجے میں آج مادی جسم کا ہم کافی زیادہ سائنسی علم رکھتے ہیں۔ جب کہ انسان کے باطنی پہلو کو جانتے ہی نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنسدان برسوں مادی جسم کو آخری حقیقت قرار دے کر انسان کے باطنی پہلو کو جھٹلاتے رہے اور انسان کی روح کو غیر مرئی اور غیر تجرباتی کہہ کر رد کرتے رہے۔ اور برسوں بعد بلآخر سائنسدانوں نے ہی انسان کے باطنی رُخ کا تجرباتی ثبوت فراہم کیا اور آج انسان پر سب سے زیادہ تحقیقی، سائنسی اور تجرباتی کام اسی باطنی رخ پر ہو رہا ہے۔ اور یہ کام کر رہے ہیں ڈاکٹر اور سائنسدان(وہم پرست یا مذہبی روحانی شخصیات نہیں جیسا کہ تصور کیا جاتا ہے )
اگرچہ روحانی علوم یا ماورائی علوم مشرق سے منسوب ہیں اور انسان کے باطنی روحانی تشخص کی زیادہ تر معلومات بھی ہمیں یہیں سے میسر آتی ہیں لیکن جدید سائنسی تحقیقات کا مرکز مغرب ہی رہا ہے۔ لہذا اسی حوالے سے ! یورپ میں کاپر نیکی (۱۵۴۳ء) وہ پہلا مفکر تھا جس نے انسان کو روحانی حقیقت ثابت کرنے کی کوشش کی۔
گلیلیو (۱۵۶۲۔ ۱۶۴۲)، نیوٹن ( ۱۶۴۲۔ ۱۷۲۷) ، ڈارون (۱۸۸۲۔ ۱۸۰۹) اور کیپلر نے بھی اس موضوع پر بحث کی۔ سر ولیم کرُکس وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے مادی دنیا پر روحانی اثرات کا سائنسی مطالعہ و تجزیہ کیا۔ ان کی کتاب (Research in the Phenomena of Spiritualism - 1874) نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔ سرا لیور لاج کی کتاب (Raymond - 1861) بھی اسی سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ ان دونوں سائنسدانوں کی تحقیق اور تجربات پر اس مسلک کی بنیاد پڑی جسے ماڈرن سپریچولزم کے نام سے پکارا جاتا ہے اور جو آجکل مغرب کی دنیا میں بڑے وسیع پیمانے پر زیر مشق ہے۔
طعبیات کے معروف سائنسدان سرالیور لاج کا کہنا تھا کہ جس طرح سائنسی طور پر تسلیم شدہ قوتیں مثلاً مقناطیسی کشش یا الیکٹرک سٹی خفیہ انداز میں کام کرتی ہیں مگر سب انہیں تسلیم کرتے ہیں اور ان کے وجود پہ ایمان رکھتے ہیں اسی طرح اس کائنات میں بہت سی قوتیں ایسی بھی ہیں جو انتہائی پوشیدگی سے اپنا کام سرانجام دے رہی ہیں۔ مگر بظاہر ان کے وجود کا سراغ نہیں ملتا محض اسی وجہ سے ان کا انکار کرنا نادانی ہو گی۔ لاج کا خیال تھا کہ اس موضوع پر ٹھوس تحقیقات کا آغاز ہونا چاہئے۔ اُسی نے کہا میں نہیں سمجھتا کہ سائنسیات اور روحانیات ابھی تک پوری طرح تعصب سے آزاد ہو سکی ہیں میرے خیال میں ان دونوں کے درمیان ایک خفیہ ربط موجود ہے۔ لاج نے یقین ظاہر کیا کہ ایسا وقت ضرور آئے گاجب خالص سائنسی انداز میں اس پہلو پر تحقیق کی جائے گی اور اس بارے میں سنجیدگی سے سوچا جائے گا۔
اور وہ وقت آ گیا درحقیقت انگلینڈ کے اعلیٰ ترین اعزاز نائٹ ہڈ (Knight Hood) سے نوازے گئے معروف طبعیات دان لاج نے خود خالص سائنسی انداز میں انسان کی روحانی خصوصیات پر تحقیق کا آغاز کر دیا تھا۔ اگرچہ ان کے ساتھی سائنسدان سائنس کی بجائے انہیں روحانی چکروں میں پڑا دیکھ کر خبطی سمجھنے لگے تھے۔ جب کہ ایک اہم سائنسدان کی روحیت کی طرف بھرپور پیش قدمی کے نتائج سامنے آنے لگے اور سائنسی انداز میں اس موضوع پر تحقیق اور تجربات کا آغاز ہوا۔ لہذا سراولیور لاج سوسائٹی فار سائیکیک ریسرچ ان انگلینڈ Society for Psychic Research in England کے بانی ممبران میں سے سراولیورلاج کے ہم خیال کئی اہم نام اُبھرے مثلاً ڈبلیوایچ مائرز(Fredrick W.H. Myers) نے اس کام کو مزید آگے بڑھایا۔ مائرز نے اپنی کتاب (Human Personality and its Survival of Bodily Death) میں سینکڑوں واقعات کا سائنسی تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جسمانی موت کے بعد انسان کی شخصیت کا وہ حصہ باقی رہتا ہے جسے ’ سپرٹ‘(Spirit) کہتے ہیں۔ اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔
دو عالمگیر جنگوں کے بعد روحانیت پر ہزاروں کتابیں منظر عام پر آئیں اور یہ کتابیں لکھنے والے مذہبی انتہا پسند یا وہم پرست عوام نہیں بلکہ یہ سائنسدان، ڈاکٹر، فلسفی اور پروفیسرز تھے۔ لہذا ن معتبر لوگوں کی مسلسل توجہ، سائنسی تحقیق اور تجربوں سے اس علم نے عملی تجرباتی دنیا میں قدم رکھ دیا اور باقاعدہ لیبارٹریوں میں سائنسی بنیادوں پر تجربات ہونے لگے۔
مادام بلاوٹسکی اور ایڈگر کیسی (ورجینیا 18 مارچ 1877 ) نے بھی روحانی صلاحیتوں کے عملی تجرباتی مظاہروں سے اُس وقت کے ڈاکٹروں سائنسدانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔ جس مرض کے علاج میں میڈیکل ڈاکٹر ناکام رہ جاتے یہ روحانی معالج نہ صرف یہ کہ مرض دریافت کرتے بلکہ اس لاعلاج مریض کا علاج بھی کر ڈالتے۔ انہوں نے ماضی اور مستقبل کے واقعات کی نشاندہی بھی کی۔ خوابوں کے اثرات، رنگ و روشنی سے علاج اور مسمریزم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے اٹھارویں صدی کے آخر میں سائنسدانوں کو انسان کے اندر موجود مقناطیسیت سے متعارف کروایا۔
لہذا سائنسدانوں نے انسان کے اندر موجود اس مقناطیسیت کو الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ (E. M. F) اور بائیوانرجی کے نام دیئے اور جدید سائنسی تحقیقات کے بعد بلآخر سائنسدانوں نے اعلان کیا کہ ایک لطیف توانائی ہمارے جسم میں سرائیت کئے ہوئے ہے۔ چونکہ یہ نظریہ اس دور کے ٹھوس مائع گیس کسی سے مناسبت نہیں رکھتا تھا لہذا ابتداء میں انسان کے اندر دریافت شدہ اس لطیف توانائی کا نام’ایتھر‘ (Ether)رکھا گیا اور اس لطیف باطنی وجود کو ایتھرک باڈی (Etheric Body)کہا جانے لگا اس دور کے روحانی علوم کے ماہرین (مادم بلاوٹسکی اور ایڈگرکیسی وغیرہ) نے اس ایتھری وجود پر مقالے بھی تحریر کئے۔ یعنی برسوں انسان کے مادی جسم کو آخری حقیقت قرار دینے والے سائنسدانوں نے خود انسان کے باطنی تشخص کا اقرار کیا اور وہ موضوع جسے کچھ عرصہ پہلے توہم پرستی قرار دیا جاتا تھا وہ موضوع انیسویں صدی میں بھرپور طریقے سے سائنسدانوں کی توجہ کا موضوع بنا۔ لہذا اس موضوع پر ہزاروں کتابیں منظر عام پر آئیں مقالے لکھے گئے سائنسی طرز کی تحقیقات تجزئے اور تجربات باقاعدہ لیبارٹریوں میں کئے گئے اور یہ محض نقطہ آغاز تھا۔ لہذا۱۹۳۰ء کی دہائی میں روس میں کیرلین نامی الیکٹریشن نے اتفاقی طور پر ایک ایسا کیمرہ ایجاد کیا جس نے انسان کے اس باطنی وجود کی تصویر کشی بھی کر لی جس کا تذکرہ ہزاروں برس سے ہو رہا تھا۔ کر لین فوٹوگرافی کے ذریعے انسان کے باطنی وجود کو واضع طور پر دیکھا گیا۔ یہ انسان کے جسم سے جڑا ہوا بالکل مادی جسم کے جیسا ہیولا نُما دوسرا انسان تھا ایک لطیف روحانی وجود جسے سائنسدانوں نے AURA کا نام دیا۔ فزکس کی شاخ میٹا فزکس نے AURA کو بائیو پلازمہ کا نام دیا۔ ۱۹۰۰ء سے اب تک سائنسدان اسے مختلف ناموں سے پکار رہے ہیں مثلاً الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ (E. M. F) یا (H. E. F) یا بائیوانرجی یا بائیو پلازمہ، وائٹل فورس، اوڈک فورس، قوئنٹ ایسنس، ففتھ ایلیمنٹ یا جسم اثیر (Etheric Body) جب کہ بنیادی نام AURA ہے۔ اب اس AURA پر سائنسی بنیادوں پر تحقیقات جاری ہیں۔ اب اسی Aura میں مزید چکراز (Chakras) اور سبٹل باڈیز Subtle Bodies بھی دریافت کی گئی ہیں۔ جدید سائنسی طریقوں سے AURA کو اس کی خصوصیات اعمال و افعال کو اور مادی جسم کے ساتھ اس کے تعلق کو سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور اس سلسلے میں لیبارٹریوں میں سائنسی بنیادوں پر کام ہو رہا ہے۔
مثلاً اسپریچول ایسوسی ایشن آف گریٹ برٹن کی وسیع عمارت میں کئی لیکچر ہال، بیس پچیس کیبن نما کمرے ہیں یہاں روحانی تجربات ہوتے ہیں۔ لندن میں سوسائٹی فار دی سائیکیل ریسرچ نے روحانیت پر سائنسی تجربات کا آغاز 1882 میں کیا۔ ہالینڈ میں مکالمہ ارواح کا فن سائنس کی شکل اختیار کر گیا لہذا حیرت انگیز سائنسی تجربات کئے گئے۔
امریکہ کی دو خواتین ٹروڈی گرس ورلڈ اور باربرامارک نورانی مخلوقات سے رابطہ کروانے کی ماہر ہیں یہ اپنی پرائیویٹ پریکٹس سان ڈیاگو کیلی فورنیا اور ویسٹ پورٹ میں کرتی ہیں۔ امریکہ، لندن، انگلستان، ہالینڈ اور روس کے علاوہ یورپ کے کئی دوسرے ملکوں میں بھی پیراسائیکالوجی(روحانیت ) کے ادارے بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں۔ ایٹمی لیبارٹریوں کی طرح پیراسائیکالوجیکل ریسرچ کے بعض پروگرام انتہائی راز داری میں رکھے جاتے ہیں اور بعض بڑی طاقتیں اب اس سائنس کو اپنے سفارتی تعلقات، بین الاقوامی معاملات، جنگی اور جاسوسی کے معاملات میں بھی استعمال کر رہی ہیں مثلاً امریکہ کا CIA کا خفیہ جاسوسی کا ادارہ (Sun Streak/Stargate) روحانی استعداد رکھنے والے جاسوسوں کو جدید سائنسی طریقوں سے روحانی تربیت دے کر روحانی سراغ رسانی کا کام لیتا ہے۔ اور یہ روحانی سراغ رساں اپنے روحانی وجود AURA کو استعمال میں لا کر دشمن کے خفیہ منصوبوں کا گھر بیٹھے سراغ لگاتے ہیں۔ یہ دشمن کے ہتھیاروں کو گھر بیٹھے ناکارہ بنا سکتے ہیں۔ یہ حکمرانوں کے دماغوں کو گھر بیٹھے کنٹرول کر سکتے ہیں۔ یہ گھر بیٹھے اپنے دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور انسان اپنی روحانی صلاحیتوں کو استعمال میں لا کر مریخ پر بھی جا پہنچا اور ہماری لاعلمی کی انتہا یہ ہے کہ ہم آج بھی اسے توہم پرستی کہہ رہے ہیں جب کہ ہماری بے خبری اور لاعلمی کے سبب آج ہماری سلامتی دشمن کے ہاتھوں میں ہے۔ آج دنیا بھر میں انسان کے باطنی رخ پر نہ صرف روحانی بلکہ سائنسی تجربات ہو رہے ہیں ا ور سائنسدان ایٹم کی طرح انسان کے اندر جھانک کر اس وسیع و عریض دنیا کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں حالانکہ ابھی سمجھ نہیں پا رہے۔ دنیا بھر میں اسی موضوع پر کتابیں تحریر کی جا رہی ہیں رسالے نکالے جا رہے ہیں ان موضوعات پر فلمیں اور ڈرامے بھی بنائے جا رہے ہیں۔ اور مختلف ٹی وی چینلز پر اب سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے عنوان سے کیسز یا دستاویزی پروگرام بھی آتے ہیں۔ ان تحقیقات سے نہ صرف آج کے لوگ استفادہ کرتے ہیں بلکہ روحانی معلومات بھی حاصل کرتے ہیں۔
صرف یورپ اور امریکہ میں روحانی اداروں سے وابستہ افراد کی ممبرشپ ایک کروڑسے زیادہ ہو چکی ہے۔
جدید تحقیقات کے نتائج۔ جدید تحقیقات قدیم ادوار کے کاموں کی تصدیق کر رہی ہیں لہذا آج ہر دور کا کام موضوع بحث ہے اور سائنسدان ماہرین محققین بلا تعصب آج ہر دور کے کام کا جائزہ لے کر انسان کی حقیقت سمجھنے کی کوشش میں مصروفِ کار ہیں۔
٭٭٭