صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
الحاد جدید کے مغربی اور مسلم معاشروں پر اثرات
مبشر نذیر
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
باب اول: الحاد کی تعریف
اللہ تعالیٰ نے جو آسمانی ہدایت اس دنیا کو عطا فرمائی وہ بنیادی طور پر تین عقائد پر مشتمل تھی: یعنی توحید،نبوت و رسالت اور آخرت۔ اس کا خلاصہ یہ ہے اس کائنات کو ایک خدا نے تخلیق کیا ہے۔ تخلیق کرنے کے بعد وہ اس کائنات سے لا تعلق نہیں ہو گیا بلکہ اس کائنات کا نظام وہی چلا رہا ہے۔ اس نے انسانوں کو اچھے اور برے کی تمیز سکھائی ہے جسے اخلاقیات (ethics) یا دین فطرت کہتے ہیں۔ مزید برآں اس نے انسانوں میں چند لوگوں کو منتخب کر کے ان سے براہ راست خطاب کیا ہے اور انہیں مزید ہدایات دی ہیں جن کے مطابق انسانوں کو اپنی زندگی گزارنا چاہئے۔ انسان کی زندگی موت پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اسے دوبارہ ایک نئی دنیا میں پیدا کیا جائے گا جہاں اس سے موجودہ زندگی کے اعمال کا حساب و کتاب لیا جائے گا۔ جس نے اس دنیا میں دین فطرت اور دین وحی پر عمل کیا ہو گا، وہ خدا کی ابدی بادشاہی یا جنت میں داخل ہو گا اور جس نے اس سے اعراض کیا ، اس کا ٹھکانا جہنم ہو گا۔
الحاد کا لفظ عموماً لادینیت اور خدا پر عدم یقین کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک اوپر بیان کئے گئے تینوں عقائد ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کا انکار یا اس سے اعراض باقی دو کو غیر موثر کر دیتا ہے اس لئے ان میں کسی ایک کا انکار بھی الحاد ہی کہلائے گا۔ چنانچہ اس تحریر میں ہم جس الحاد کی تاریخ پر گفتگو کریں گے وہ وجود خدا، نبوت و رسالت اور آخرت میں سے نظریاتی یا عملی طور پر کسی ایک یا تینوں کے انکار پر مبنی ہے۔ ہماری اس تحریر میں الحاد کی تعریف میں مروجہ Atheism, Deism اور Agnosticism سب ہی شامل ہیں۔
ازمنہ قدیم سے ہی بعض لوگ الحاد کے کسی نہ کسی شکل میں قائل تھے لیکن اس معاملے میں خدا کے وجود کا انکار بہت ہی کم کیا گیا ہے ۔ بڑے مذاہب میں صرف بدھ مت ہی ایسا مذہب ہے جس میں کسی خدا کا تصور نہیں پایا جاتا۔ ہندو مذہب کے بعض فرقوں جیسے جین مت میں خدا کا تصور نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں صرف چند فلسفی ہی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے خدا کا انکار کیا۔ عوام الناس کی اکثریت ایک یا کئی خداؤں کے وجود کی بہرحال قائل رہی ہے۔ نبوت و رسالت کا اصولی حیثیت سے انکار کرنے والے بھی کم ہی رہے ہاں ایسا ضرور ہوا کہ جب کوئی نبی یا رسول ان کے پاس خدا کا پیغام لے کر آیا تو اپنے مفادات یا ضد و ہٹ دھرمی کی وجہ سے انہوں نے اس مخصوص نبی یا رسول کا انکار کیا ہو۔ آخرت کا انکار کرنے والے ہر دور میں کافی بڑی تعداد میں دنیا میں موجود رہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے دور کے مشرکین کے بارے میں بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ وہ خدا کے منکر تو نہ تھے لیکن ان میں آخرت پر یقین نہ رکھنے والوں کی کمی نہ تھی۔
عالمی تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خالص الحاد دنیا میں کبھی قوت نہ پکڑ سکا۔ دنیا بھر میں یا تو انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے ماننے والے غالب رہے یا پھر دین شرک کا غلبہ رہا۔ دین الحاد کو حقیقی فروغ موجودہ زمانے ہی میں حاصل ہوا ہے جب دنیا کی غالب اقوام نے اسے اپنے نظام حیات کے طور پر قبول کر لیا ہے اور اس کے اثرات پوری دنیا پر پڑ رہے ہیں۔ اس تحریر میں ہم یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ وہ کیا عوامل تھے جن کی بنیاد پر الحاد کو اس قدر فروغ حاصل ہوا ؟ دنیا بھر میں الحاد کی تحریک نے کیا کیا فتوحات حاصل کیں اور اسے قبول کرنے والے ممالک اور اقوام کی سیاست، معیشت اور معاشرت پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ تاریخ کے مختلف ادوار میں الحاد کی تحریک نے کیا کیا رنگ اختیار کئے اور دور جدید میں الحاد کی کونسی شکل دنیا میں غالب ہے؟ مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو چکے ہیں اور اس کے مستقبل کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟
٭٭٭