صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


اختیارات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم اور
احادیث نبویہ

علامہ  ضیاء المصطفیٰ

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

                                       اقتباس

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اختیارات و تصرفات، ایک ایسا موضوع ہے جس کے اوپر عہدِ رسالت سے لے کر عصرِ حاضر تک اُمت اسلامیہ کا اتفاق رہا ہے لیکن آج کچھ لوگوں نے اپنے ذہن و فکر سے جب یہ عقیدہ وضع کر لیا کہ ایک نبی عام انسان کے جیسا ہوتا ہے۔ تو اس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں عام انسانوں جیسے اختیارات اور انھیں جیسی قوت و تصرفات کا اعلان کر دیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن عظیم میں اور احادیث نبویہ میں اور اسلاف کے عقائد و فکر میں دلائل کا ایک سیل رواں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے خلیفۂ اعظم ہیں اور اس کے نائب مطلق ہیں اور یہ خلافت و نیابت اسی وقت اپنے حق کو پہنچ سکتی ہے جب کہ رب قدیر جل جلالہ کے صفات کا بھرپور جلوہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات سے نمایاں ہو تو یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ عقیدہ صرف بریلی کی پیداوار ہے بلکہ میں تو یہ دیکھتا ہوں کہ اس عقیدے کی تعلیم ہمیں قرآن نے دی اور اس عقیدے کی تلقین رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم کو کی اور اس عقیدے پر قیام و استحکام کا جو ایک سلسلۂ لامتناہی ہمارے سامنے نظر آتا ہے وہ صحابۂ کرام اور ہمارے اسلاف سے اب تک چلا آ رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آج احادیث نبویہ کی روشنی میں اس سلسلے میں تھوڑی سی گفتگو کروں لیکن اس گفتگو سے پہلے میرا خیال یہ ہے کہ ذہنوں کو قریب کرنے کے لیے آپ کے تھوڑے سے حالات کا جائزہ لینے کے لیے ایک تمہید پیش کر دوں تو بات بہت جلد ذہن میں اُتر جائے گی پہلے ایک بار درود پاک پڑھیں تاکہ ہماری اور آپ کی گفتگو آگے بڑھ سکے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ ۔۔۔


عزیزانِ ملت! ہم میں سے کون ایسا نہیں ہے کہ جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے جسمانی طور پر قوتیں اور توانائیاں عطا نہ کیں؟ اور ان قوتوں کا اظہار بظاہر خود ہماری ذات سے نہ ہوتا ہو؟ مثلاً اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں میں ایک قوت رکھی ہے جس سے ہم کسی گرتے ہوئے کا سہارا بھی بن جاتے ہیں۔ اور اس قوت سے ہم کسی کا گلا بھی دبا دیتے ہیں۔ اس قوت سے ہم دستگیری بھی کرتے ہیں اور اس قوت سے ظلم کے پہاڑ بھی توڑتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہماری زبان میں ایک قوت رکھی ہے جس سے امر بالمعروف نہی عن المنکر کا کام لیتے ہیں اور اسی سے ہم لوگوں کو گالیاں بھی دے سکتے ہیں اور دعائیں بھی دے سکتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم کے باہر بھی کچھ طاقت رکھی ہے ان طاقتوں کا ایک بہت ہی عظیم سلسلہ رواں دواں ہے آپ اگر غور فرمائیں تو کیا ہمارے گرد دولتوں کا انبار نہیں ہوتا؟ اور وہ دولتیں ہماری قوت بنا کرتی ہیں۔ ہماری عزت اور شوکت بنا کرتی ہیں۔ مثلاً ہماری جیب میں اگر پیسے ہیں تو ایک غریب ایک مسکین اور ایک یتیم کی مدد بھی اس سے کر سکتے ہیں اور جیب میں پیسے ہیں تو ہم اس سے جُوا بھی کھیل سکتے ہیں۔ سینما بازی بھی کر سکتے ہیں سود کے کاروبار میں بھی اس کو لگا سکتے ہیں۔ جیب میں پیسے ہیں تو مظلوموں کی دستگیری بھی کر سکتے ہیں۔ تو یہ پیسے اور یہ دھن دولت بھی انسان کی ایک قوت ہیں یہ ساری قوتیں رکھتے ہوئے بھی آپ مجھے یہ بتائیں کہ کیا دین کے بارے میں کچھ اختیار رکھتے ہیں؟ آپ اپنی قوتوں سے دنیا کے معاملے میں بہت سارا کام انجام دے سکتے ہیں۔ اپنی قوتوں کی وجہ سے آپ لوگوں کی دستگیری بھی کر سکتے ہیں۔ کسی کے گھر میں آگ بھی لگا سکتے ہیں۔


کسی کے جلتے ہوئے خرمن کی آگ بجھا سکتے ہیں۔ مگر آپ مجھ کو یہ بتا سکتے ہیں کہ اپنی کسی قوت سے دین کے اندر بھی کوئی تصرف کر سکتے ہیں؟کسی حلال کو حرام قرار دے دیں۔ کسی مستحب کو فرض قرار دے دیں۔ کسی فرض کو جائز کے درجے میں رکھ دیں۔ یہ آپ کے اختیار سے باہر ہے۔ دنیا کا بڑا سے بڑا طاقتور انسان بھی دنیاوی معاملات میں کتنی ہی طاقت کیوں نہ رکھتا ہو۔ مگر دین کے معاملے میں بے بس اور مجبور نظر آتا ہے مگر ہم کو یہ کہہ لینے دیا جائے کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے دنیاوی اختیارات کیا ہوں گے۔ وہ تو بعد میں دیکھوں گا دین میں وہ اختیارات ہیں کہ قرآن فرماتا ہے۔ ’’مَآاٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَانَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا‘‘[2]


رسول جو دے دیں وہ لے لو جس چیز سے روک دیں باز آ جاؤ، نبی کے وہ اختیارات ہیں کہ اللہ نے اس طرح سے نہ فرمایا کہ رسول کے روکنے اور رسول کے حکم دینے کا کوئی اعتبار نہیں ہے اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ جب میری طرف سے میرا حوالہ دے کر میرا حکم دیں تو مانا جائے گا بلکہ ڈائرکٹ اس طرح کی بات کی گئی کہ رسول جو دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے باز آ جاؤ۔ اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو دین کے معاملے میں اپنا خلیفۂ مطلق بنایا اپنا نائب اعظم بنا دیا۔ اب رسول جس چیز کو چاہیں حلال کریں اور جس چیز کو چاہیں حرام کریں۔ یہی وجہ ہے کہ بخاری شریف و مسلم شریف اور حدیث کی دوسری کتابوں میں صراحت ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح مکہ کے موقع پر دین میں اختیارات کا اعلان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے مکے کو حرم بنایا ہے۔ ’’لَا یُعْضَدُ شَوْکُھَا وَ لَا یُنَفَّرُ صَیْدُھَا وَ لَا یَلْتَقِطُ لُقْطَتُھَا اِلَّا مَنْ عَرَّفَھَا وَ لَا یُخْتَلٰی خِلَالُھَا فَقَالَ الْعَبَّاسُ یَارَسُوْلَ اللہِ اِلَّا الْاِذْخِرْ فَاِنَّہ لِقَیْنِھِمْ وَلِبُیُوْتِھِمْ فَقَالَ اِلَّا الْاِذْخِرْ‘‘[3] اللہ نے مکہ کو حرم بنایا ہے کہ یہاں کا کوئی کانٹا بھی نہ توڑا جائے، یہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں اور یہاں کی گھاس نہ اکھیڑی جائے۔ تو حضرت سیّدنا عباس بن عبد المطلب یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا کھڑے ہو گئے۔ عرض کرتے ہیں: ’’یَارَسُوْلَ اللہِ اِلَّا الْاِذْخِرْ فَاِنَّہ لِبُیُوْتِنَا وَلِقُبُوْرِنَا وَلِصَاغَتِنَا‘‘[4] یا رسول اللہ! اذخر گھاس کاٹنے کی اجازت دے دی جائے۔ اس لیے کہ وہ ہمارے گھروں کے چھپر بنانے کے کام آتی ہے، قبروں میں جب مردوں کو لٹایا جاتا ہے تو تختے پر اس کو لگایا جاتا ہے اور جب کوئی سونے کا کاروبار کرنے والا سُنار اپنا سونا پگھلاتا ہے تو اس میں استعمال کرتا ہے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اس کی اجازت دے دی جائے۔ میرے آقا نے فرمایا: ’’اِلَّا الْاِذْخِرْ اِلَّا الْاِذْخِرْ‘‘ ہاں اجازت ہے اذخر گھاس کی اذخر گھاس کاٹنے کی اجازت ہے۔


غور فرمائیے کہ ایک طرف تو میرے آقا نے یہ فرمایا تھا کہ کوئی کانٹا یہاں کا نہ توڑا جائے، کوئی درخت نہ کاٹا جائے، کوئی گھاس نہ اکھیڑی جائے، گویا ہر خودرو درخت، گھاس کٹیلا وغیرہ کاٹنا حرام فرما دیا مگر دوسری طرف جب حضرت عباس نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے اذخر گھاس کاٹنے کو حلال کرنے کی درخواست کی تو میرے آقا نے یہ نہ کہا یہاں پر میرا اختیار سلب ہو گیا، میرا کوئی اختیار کام نہیں کرتا، اللہ کا یہی حکم ہے، اسی نے مکے کو حرم بنایا ہے، وہ اگر جائز کرے گا تو جائز ہو گا۔ ورنہ نہیں بلکہ میرے آقا نے فرمایا، جاؤ اذخر گھاس کاٹنے کی اجازت ہے۔ اس سے یہ سمجھ میں آ گیا کہ میرے آقا رسول اکرم سیّد عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ نے حلال اور حرام کے بارے میں یہ اختیار دے دیا ہے کہ جس چیز کو چاہیں حلال کریں اور جس چیز کو چاہیں حرام فرما دیں۔ پڑھیے درود پاک اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ۔۔۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول