صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
اذنِ سفر
مختلف مصنفین
ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
فیجی۔ ۔ چڑھتے سورج کا پہلا سلام
ڈاکٹر صہیب حسن
میں فیجی کے بارے میں اتنا ہی جانتا تھا کہ اگر کرۂ ارض کے گلوب کو غور سے دیکھا جائے، تو بالائی سطح پر جہاں لندن نظر آئے گا وہاں بالکل اس کے نیچے جزائر فیجی نظر آئیں گے جہاں ۱۸۰ ڈگری طول بلد کا خط اُن کے قریب سے گزر رہا ہو گا۔
۱۹۸۴ء کے آغاز کی بات ہے جب سعودی عرب کی وزارتِ تعلیم اور دارالافتاء کے تعاون سے وہاں ایک ماہ کا تعلیمی اور تربیتی کورس رکھا گیا، جس میں مجھے بہ حیثیت ایک مدرس شرکت کرنا تھی۔ اس کورس میں فیجی، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور بحر الکاہل کے دیگر جزائر سے ائمہ کرام کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔
برٹش ایئر ویز کی پرواز صبح دس بجے لندن سے روانہ ہوئی اور ساڑھے دس گھنٹے کی مسلسل اُڑان کے بعد سان فرانسسکو کے ہوائی اڈے پر اُتری۔
میری اگلی پرواز نیوزی لینڈ ائر لائنز سے ’ہونولولو‘ (جزیرہ ہوائی) کے لیے تھی جو ساڑھے چار گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ روانہ ہوتے ہوئے یہاں شام کے سات بج گئے تھے۔ ’ہونولولو‘ میں رات کی تاریکی ہر سُو چھائی ہوئی تھی اس لیے اس خوبصورت جزیرے کی ایک جھلک دیکھنے کی تمنا دل ہی میں رہ گئی۔ ’ہونولولو‘ میں ایک ساعت کے اسٹاپ کے بعد فیجی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے ’ناندی‘ کے لیے روانہ ہوئے۔ ساڑھے چھ گھنٹے کی پرواز کا مطلب ہے کہ ہمیں کوئی ۳۲۲۵میل کی مسافت طے کرنا تھی۔ ہم مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے چار بجے ’ناندی‘ پہنچے۔
پاسپورٹ کی چیکنگ کے مرحلہ سے فارغ ہو کر ہوائی اڈے کے بیرونی حصہ میں آیا، ابھی فیجی کے دارالسلطنت ’سووا، (Sauva) کی پرواز پکڑنا باقی تھی۔ ائر پیسیفک کا ایک چھوٹا جہاز سولہ مسافروں کو اپنے دامن میں سموتا ہوا عازمِ ’سووا‘ ہوا۔ میں پائلٹ کے بالکل عقب میں ہونے کی وجہ سے سامنے کا منظر بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ اس جزیرے کی بے پناہ ہریالی، ندی نالوں کی کثرت، خال خال مٹی کے گھروندے، افریقہ کی یاد دلا رہے تھے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ وہاں ایسے سفر میں ہرن، چیتل، زیبرے، سانڈ، بندر اور زرافے کودتے پھلانگتے نظر آتے ہیں۔
’سووا‘ کی پہلی جھلک میں اسکولوں کے بچے بچیاں بستے اُٹھائے اسکولوں کی طرف بڑھتے نظر آئے، اکثر چہرے ہندوستانی تھے۔ بعد میں پتا چلا کہ فیجی کی سات لاکھ کی آبادی میں اکثریت ہندوستانیوں کی ہے۔ میرا قیام ہوائی اڈے سے بارہ میل دور TRADEWIND نامی ہوٹل میں تھا، کمرے کی کھڑکیاں چند قدم کے فاصلے پر سمندر کی اُن لاتعداد کھاڑیوں کی نشاندہی کر رہی تھیں جن کا نمکین پانی جزیرے کے کونے کونے کو اپنے وجود کا احساس دلاتا رہتا ہے۔
ہماری مصروفیات کا آغاز تعارفی اجتماع سے ہوا، پروگرام کے کرتا دھرتا شیخ عبد العزیز المسند سے ملاقات ہوئی جو اسی مقصد کے لیے اپنی ٹیم کے ساتھ ریاض سے تشریف لا چکے تھے۔
میرے لیے برادرم ابراہیم آرکیکنیل سے ملاقات بڑی مسرت کا باعث رہی، جنوبی ہند کے یہ دوست، جامعہ ازھر کے تعلیم یافتہ تھے اور کینیا کے قیام کے دوران حلقہ تعارف میں آئے، پھر دعوتی و تبلیغی پروگراموں میں بعض اوقات دن رات ساتھ رہا، میرے نیروبی چھوڑنے کے کچھ عرصہ بعد یہ فیجی آ گئے تھے اور اب ایک ہمدم دیرینہ سے ملاقات پرانی یادوں کو تازہ کر گئی۔
آج کی شام پروگرام کا افتتاحی اجلاس تھا جس میں فیجی کے نائب وزیر اعظم، آسٹریلیا میں سعودی سفیر، آسٹریلیا کی مسلمان تنظیموں کی فیڈریشن کے صدر، فیجی حکومت کے دو مسلمان وزرا اور ہندو پاک کے سفارتی نمائندوں نے بطورِ خاص شرکت کی۔
فیجی کے نائب وزیر اعظم یہاں کی مقامی آبادی جسے (پولونیشین) سے تعبیر کیا جاتا ہے، کے ایک معزز فرد تھے، اپنی افتتاحی تقریر میں انہوں نے اسلام کی خوبیوں کا تذکرہ کیا۔ سورۃ اخلاص کا ترجمہ پڑھ کر سنایا اور پروگرام کا باقاعدہ آغاز کر دیا۔ موصوف اپنے روایتی قومی لباس (سولا) میں ملبوس تھے جس میں قابلِ ذکر ان کا دھوتی نما لہنگا ہے، لیکن اس کی تنگ دامنی گاندھی جی کی دھوتی کی یاد دلا رہی تھی، لیکن ہمیں اس سے کیا؟ ہر دیس کا اپنا اپنا بھیس!!
اب میں روزانہ کی ڈائری ایک طرف رکھتا ہوں اور فیجی کی اقامت کے دوران اپنی مصروفیات کا اجمالی تذکرہ کرتا ہوں۔
٭٭٭