صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


کیا ابلیس عالم تھا؟

سید نصیر الدین نصیر گیلانی

ڈاؤن لوڈ کریں  

 ورڈ فائل                                                                ٹیکسٹ فائل

 ابلیس عالم تھا یا نہیں؟

نومبر 2000 ء کے شمارہ "طلوع مہر" میں "موازنہ علم و کرامت" کے عنوان سے میرا ایک مضمون شائع ہوا۔ جسے قارئین نے بہت پسند کیا، خاص طور پر اندرون  بیرونِ ملک سے متعدد علماء و اُدباء نے خطوط تحریر فرمائے۔ جن میں میری اس کاوش کو سراہا گیا۔ میں جواباً یہی کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے ، جو بغض و عناد اور حسد و کینہ کو بلائے طاق رکھ کر نفسِ مضمون کی اہمیت کو سمجھتے اور اس کی قدر کرتے ہیں۔ میں اسے اللہ تعالیٰ کا محض فضل و کرم اور بزرگوں کی روحانی توجہ کا اثر سمجھتا ہوں۔ورنہ

نہ خریدار کا حصہ ہوں نہ حق بائع کا

میں وہ دانہ ہوں جو گِر جائے کفِ میزاں سے

زیرِ نظر مضمون میں بھی کوشش کی گئی ہے کہ اسی علمی موضوع کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے ایک عظیم غلط فہمی کا ازالہ کیا جائے۔ یہ ایسی غلط فہمی ہے کہ اس کا ذکر اکثر پڑھے لکھے لوگوں کی زبان سے سننے کا اتفاق ہوا۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ علم انسان کے لیے سب سے بڑی دولت ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ بعض اوقات اس کی نسبت کسی بزرگ ہستی یا اپنے کسی من پسند انسان کی طرف ہو تو کچھ لوگ اسے یعنی علم کو وراثتِ انبیاء قرار دے کر اس شخصیت کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہی کہ یہ شخص انبیاء علیہم کا وارث ہے اور جب اسی علم کی نسبت کسی ایسے شخص سے کر دی جائے جو ان کا من پسند نہ ہویا جن سے اس کی مخالفت ہو تو وہی لوگ بغض اور حسد کی بنا پر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ علم تو شیطان میں بھی تھا،یا یہ کہ یوں تو شیطان بھی بڑا عالم تھا۔اس طرزِ گفتگو سے ان کا مقصد اپنے مخالف کی تحقیر و تذلیل ہوتا ہے کہ اگر ان کا کوئی مخالف صاحب علم ہے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے ،عالم ہونے کو تو ابلیس بھی بہت بڑا عالم تھا گویا یہ کہہ کر وہ اپنے ذہن کے مطابق تو اپنے مخالف کی تحقیر کرتے ہیں،مگر حقیقت میں وہ علم اور جملہ اہلِ علم کی تذلیل کر رہے ہوتے ہیں۔بلاشبہ ایسے جہلا اورحاسدین کا یہ عمل انتہائی گھٹیا پن کی غمازی کرتا ہے۔وہ اپنے کسی مخالف یا مدِّ مقابل کو گرانے اور بے وقعت ثابت کرنے کی خاطر تمام بزرگوں اور اربابِ علم کی علمی فضیلت پر ہاتھ صاف کر دیتے ہیں۔

بقول شاعر:

صرف میرے آشیاں کے چار تنکوں کے لیے

برق کی زد پر گلستاں کا گلستاں رکھ دیا

ابلیس کے عالم و فاضل ہونے کی روایت جو عموماً بیان کی جاتی ہے ،تحقیق بسیار کے باوجود بھی اس کا کسی مستند کتاب میں کم از کم مجھے کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔مسلمانوں کے نزدیک کسی چیز کے قبول یا رد کرنے کے صرف دو معیار ہیں،ایک قرآن مجید اور دوسرا احادیث۔ احادیث کے سلسلہ میں بھی تحقیق کرنا علماء کا دستور ہے کہ یہ حدیث با اعتبارِ صحت کس درجہ کی ہے۔ پھر اس کی صحت ثابت ہو جانے کے بعداسے تسلیم کرنا ضروری ہوتا ہے۔میں نے اس مسئلہ پر بہت عرصہ غور و خوض کیا، آخر قرآن مجید کے حوالے سے جس نتیجہ پر پہنچا وہ ساری بحث ہدیہ قارئین کرنا چاہتا ہوں۔یہ حقیقت ہے کہ انسان کے علم سے ملائکہ کا علم کم ہے اس پر

وعلّم آدم الاسماء کلّھااور قالوا لاعلم لنا اِلّا ما علّمتنا

کی آیات شاہد ہیں۔ رہا یہ کہ ابلیس کے حدود اربعہ کیا ہیں۔ قرآنِ مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے کہ

کان من الجنّ ففسق۔۔۔ الخ۔

ابلیس ملائکہ میں سے نہیں تھا بلکہ قبیلہ ٔ جنّات سے تھا۔ تفسیر روح المعانی میں علّامہ الشیخ السیّد محمود احمد آلوسی بغدادی حنفی فرماتے ہیں:

(کان من الجن) فقیل کان اصلہ، جنّیا، وھذا ظاہر فی انّہ، لیس من الملائکۃ۔۔۔ و ھو قول کثیر من العلمائ حتّی قال الحسن فیما أ خرجہ عنہ ابن المنذر وابن ابی حاتم قال اللہ تعالیٰ اقوامً زعموا ان ابلیس من الملئکۃ واللہ تعالیٰ یقول(کان میں الجن) واخرجَ عنہ ابن جریروابن الانباری فی انّہ اصل الجنن کما انّ آدم علیہ السلام اصل الانس، فیہ دلالتہ علی لم یکن قبلہ، جنّ کما لم یکن قبل آدم علیہ السلام انس۔۔ الخ

یہاں علّامہ محمود بغدادیؒ نے اگرچہ اور بھی متعدد اقوال نقل فرمائے ہیں اور اُن پر کافی اعتراض و جواب کا سلسلہ بھی چلایا ہے مگر گھوم پھر کر زیادہ معتبر قول یہی ہے جو ہم اُوپر نقل کر آئے ہیں کیوں کہ اگر ابلیس کو ملک (فرشتہ)  مانا جائے تو پھر فرشتوں کا معصوم ہونا باقی نہیں رہے گا۔

فرشتوں سے نافرمانی ہونا ظاہر ہو گا جب کہ لا یعصون اللّٰہ مَا اَمَرھُم و یفعلون مَا یومرونَ اس کی نفی کرتا ہے۔ اگر یہاں یہ کہہ دیا جائے کہ فرشتے سب کے سب معصوم نہیں بلکہ ملائکۂ رسل اور ملائکۂ مقربین ہی معصوم ہیں، اور اُن کے علاوہ عام فرشتے غیر معصوم ہیں تو پھر شیطان (ابلیس) عام فرشتوں میں سے ماننا پڑے گا جب کہ دلائل و آثار اس کے خلاف ملتے ہیں۔ بلکہ وہ تو انتہا درجے کا مقّربِ بارگاہِ الٰہی بن چکا تھا۔ اسی طرح حاشیہ شیخ زادہ محی الدّین علی البیضاوی میں ہے۔

قرر قبح الکبر الفتخار ببیان انّہٗ من سنن ابلیس فانّہ لمّا امتنع عن السجود لآدم استکبار او افتخار بانَ اصلہ نارو اَصل آدم تراب ، و النّار علوی نورانی لطیف فیکون اشرف من التراب الّذی ھوسفلی ظلمانی کثیف و اداہ ذٰلِک الکبر اِلیٰ ان صارَ ملعونا مخلدا فی النار بعد ان کان رئیس الملائکہ۔۔۔ الخ

اس عبارتِ محولہ سے دو حقیقتیں مترشح ہوئیں۔ پہلی تو یہ کہ ابلیس کی تخلیق آگ سے ہے ، اسی لئے وہ قبیلہ جنات میں سے ہے نہ کہ جماعتِ ملائکہ میں سے۔ دوسری یہ کہ اُس نے سجدہ آدم سے انکار غرور و تکبر کی وجہ سے کیا اور وجہ کبر و افتخار اُس کا یہ زعم تھا کہ میں اصل و تخلیق یعنی نسب کے اعتبار سے آدم سے افضل و بہتر ہوں۔ اِس سے آگے اگرچہ علامہ شیخ زادہ نے ابلیس کے لفظِ معلم بھی استعمال کیا ہے مگر اوّلاً تو یہ معلم و مجتھد فی العبادہ مراد ہے۔ جیسا کہ عبارتِ مندرجہ ذیل صراحت کر رہی ہے معلم و اشدًھم اجتھاد فی العبادہٗ ثانیاً کسی آیت قُرآنی یا حدیث نبّوی سے اِس قولِ مذکور کی تائید نہیں ہوتی جب کہ ہمارے پیش کردہ موقف کی پشت پر دلائلِ قرآن و حدیث موجود ہیں۔

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول