صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
حیدر آبادی شعرا
ترتیب : جلال الدین اکبرؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
فاطمہ تاجؔ
محترمہ فاطمہ تاجؔ کا اسم گرامی محتاج تعارف نہیں ۔ ان کی نثری اور شعری تخلیقات اردو دنیا کے تقریباً تمام اخبارات، رسائل و جرائد میں شائع ہو چکی ہیں اور ان کی شخصیت پر نسیم سلطانہ نے ایم فل بھی کیا۔ محترمہ کو کل ہند سطح پربھی ایوارڈز عطا کیے گئے۔ جن میں اتر پردیش اردو اکیڈیمی ایوارڈ، اندر گاندھی انٹر نیشنل ایوارڈ، آل انڈیا میر اکیڈیمی کی جانب سے ’’امتیاز میر‘‘ ایوارڈ‘ آندھراپردیش اردو اکیڈیمی نے دو ایوارڈز عطا کیے۔ ساہتیہ اکیڈیمی دہلی نے ’’مدر ٹریسا‘‘ ایوارڈ سے نوازا۔ آندھراپردیش لینگویج کمیشن نے بھی انھیں با وقار ایوارڈ عطا کیا۔
محترمہ فاطمہ تاجؔ کی ابھی تک بارہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور کئی کتابیں عنقریب شائع ہو کر منظر عام پر آنے والی ہیں جن میں ’’دیوان تاجؔ‘‘ بھی شامل ہے جو ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔
محترمہ فاطمہ تاجؔ کے بچپن کے استاذ مکرم عالی جناب ڈاکٹر عبدالغفار خاں صاحب (راشٹر پتی ایوارڈ یافتہ )کے بموجب ’’فاطمہ تاجؔ ازل سے شاعرہ ہیں ۔ میں نے انہیں چھ برس کی عمر سے شعر موزوں کرتے ہوئے بارہا سنا ہے۔ ‘‘
اشعار کی آمد اس طرح ہے کہ جھرنوں اور آبشاروں سے جس طرح پانی خوبصورتی کے ساتھ ڈھلتا ہے عین اسی طرح محترمہ فاطمہ تاجؔ کے قلم سے شعر ڈھلتے ہیں ۔
تبحر علم کا یہ عالم ہے کہ نظم و نثر کی کئی اصناف پر انہیں ملکہ حاصل ہے۔
جلال الدین اکبرؔ
غزلیں
درد کا دریا پار کیا ہے یاد کا صحرا باقی ہے
جتنا رستہ چل کر آئے اُتنا رستہ باقی ہے
تیرا میرا ماضی بچھڑے ایک زمانہ بیت گیا
اب بھی دونوں ساتھ نہیں ہیں پھر بھی رشتہ باقی ہے
نیند ہماری خواب تمہارے صبح ہوئی تو ٹوٹ گئے
دروازے پر اب بھی لیکن شام کا پہرہ باقی ہے
کتنی باتیں تم سے کہی ہیں کتنی باتیں تم سے سنیں
پھر بھی ایسا لگتا ہے کچھ کہنا سننا باقی ہے
گلشن جیسے آنگن میں ہم آنکھ مچولی کھیلے تھے
اب تک میری آنکھوں میں وہ خواب سنہرا باقی ہے
تھوڑی فرصت اور ملے تو بات بڑھے گی کچھ آگے
بات ہماری ختم ہوئی ہے دل کا قصہ باقی ہے
صدیوں سے ہم جیتے آئے عمر نہ پھر بھی ختم ہوئی
تم ہی بتاؤ تاجؔ ہمارا، کتنا عرصہ باقی ہے
***
صحرا کی سرزمین گلوں سے سنور گئی
آخر ہمارے درد کی خوشبو بکھر گئی
بھیگی ہوئی سی ریت میں موتی بھی دفن تھے
ساحل پہ آ کے موجِ بلا بھی ٹھہر گئی
آسودہ ہو چکی تھی تری چشمِ نم مگر
میرے غمِ حیات کا پیمانہ بھر گئی
لے کر پیامِ زندگی پھر آ گئے ہیں آپ
جب ساعتِ حیات ہماری گزر گئی
کس کو خبر کہ کیسے ہوئی ہم سے یہ خطا
دل کے ورق پہ آپ کی صورت اُتر گئی
جلنے لگے ہیں آپ کی آنکھوں میں بھی چراغ
اس طرح اپنی شامِ تمنا سنور گئی
آہٹ پہ چونکتے رہے ہم تاجؔ بار بار
عالم میں انتظار کے اپنی گزر گئی
***
٭٭٭٭٭٭٭