صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
آزادی کے بعد حیدرآباد کی نثر نگار خواتین
نجم النساء
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
جیلانی بانو
جیلانی
بانو اردو کی ہمہ جہت ادیبہ ہیں۔ انہوں نے نثر کی تمام اصناف پر طبع
آزمائی ہے اس کے علاوہ انہوں نے کتابوں پر تبصرے بھی کئے روزنامہ سیاست ‘‘
میں کالم شیشہ و تیشہ بھی لکھا ہے۔ مختلف اخبارات ورسائل میں ان کی
تخلیقات شائع ہوئی ہیں۔ یہ ملک و بیرون ملک کی مشہور شخصیت ہیں۔ انکی
شخصیت محتاج تعارف نہیں۔
جیلانی بانو کے دو مشہور ناول
’’ایوان غزل ‘‘ اور ’’بارش سنگ ‘‘ہیں۔ ان کاسب سے پہلا ناول ’’ایوان غزل
ہے جو۱۹۷۶ء میں زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آیا۔
انہوں
نے ابتداء میں اس ناول کا نام ’’عہدستم ‘‘رکھا تھا۔ ہندوستان اس وقت
بحرانی دورسے گزر رہا تھا۔ عہدستم ‘‘ نام سنسر کی زد میں آ جانے کے
خطرے کے پیش نظر ’’ایوان غزل ’’میں تبدیل کر دیا۔
جیلانی بانو نے
’’ایوان غزل ’’لکھ کر اردو ناولوں میں ایک اچھے ناول کا اضافہ کیا۔
اردو کے پسندیدہ ناولوں میں اس کا شمار کیا جاتا ہے۔
’ایوان غزل
’’میں اپنے عہد کی بہتر انداز میں ترجمانی کی ہے۔ اس میں حیدرآباد کی
جاگیرداری زندگی کی نزاعی کیفیت، کرب و الم کا خاکہ پیش کیا ہے۔
’’ایوان
غزل ‘‘ میں ادبی تقریبات ہوا کرتی تھیں۔ جشن قوالی کبھی غزلوں کی شامیں
کبھی رقص کی محفلیں وغیرہ۔ واحدحسین موسیقی و رقص کے دلدادہ تھے۔ واحدحسین
کے بیٹے ارشدحسین اور انکی بیوی رضیہ کو ایک لڑکی تولد ہوتی ہے اس کا نام
غزل رکھا جاتا ہے۔
اس ناول کی ہیروئین غزل ہے اور ایک اہم ترین
کردار ہے غزل بچپن میں اسٹیج پر کام کرتی ہے۔ غزل کی زندگی میں کئی مرد
آتے ہیں ہر دفعہ وے دھوکہ دہی کا شکار ہوتی ہے۔ بلگرامی اپنی محبت کے جال
میں غزل کوپھانستا ہے۔ نصیر منگنی کی انگوٹھی پہنا کرپاکستان چلا جاتا ہے۔
غزل بھی نصیر کو چاہنے لگتی ہے اور نصیر کا انتظار بھی کرتی ہے۔ ادبی
تقریب میں مشہور و مقبول شاعرسرورجس نے مغرورحسیناوں کو جھکایا تھا۔ غزل
کی زندگی میں سرورآتا ہے لیکن غزل سرورکی دام محبت میں نہیں پھنستی ہے اور
سرورکوغریبی کی وجہ سے ٹھکرا کر ایک ڈاکٹرسے شادی کر لیتی ہے۔ اُسی اثنا
میں نصیرپاکستان سے آ جاتا ہے اور اپنی منگنی کی انگوٹھی واپس لینے کے لئے
غزل کے قریب آتا ہے اور غزل بھی نصیر کی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ نصیر
جب انگوٹھی غزل سے واپس لے لیتا ہے یہ صدمہ غزل برداشت نہیں کر پائی اور
غزل کی وفات ہو جاتی ہے۔ غزل کی وفات کے بعد نصیر کرانتی سے تعلقات بڑھاتا
ہے لیکن کرانتی بہت ہوشیار لڑکی ہے نصیر کے جال میں نہیں پھنستی اور
نصیرسے دور رہتی ہے۔
ایوان غزل میں غزل کی طرح بی بی کا کردار بھی
اہمیت کا حاصل ہے۔ بی بی واحدحسین کی بیویوں میں سے ایک ہیں۔ بی بی کا
کردار بغیر کسی تبصرے کے اس اقطباس سے ملاحظہ فرمایئے :
’’پانچ ہزار
کے نقد کے لالچ نے منشی صاحب کو پگھلا دیا۔ ایوان غزل کے سب سے بڑے
ہال ‘‘ بہت الغزل ’’میں بی بی دلہن بنی اپنا جلوہ دکھا رہی تھیں۔ جب
چار مضبوط عورتوں نے مل کر نکاح کے اقرار کو ان کی گردن پکڑ کربلائی تو وہ
بے ہوش ہو گئیں اور دُلہا کے بدلے سب سے پہلے ان کی صورت حکیم نے دیکھی۔
(جیلانی بانو ’’ایوان غزل ص ۳۲ ص ۳۳
)
بی بی بہت پھولی اور معصوم تھیں۔ دنیاسے بے خبر اپنا حق
مانگنے کی پردہ نہیں۔ بی بی کے مزاج کوسمجھنے کے لئے یہ اقتباس
ملاحظہ فرمائیے۔
’’بی بی بڑے ٹھنڈے خون کی تھیں اور تین برس گزرنے
کے باوجود وہ اپنے کو ایوان غزل کی ملکہ کے بجائے ایک چپراسی کی لڑکی ہی
سمجھتی ہیں۔ انہوں نے اپنے سارے اختیارات لنگڑی پھوپھوکوسونپ دیئے تھے اور
خودسارے گھرکی ذمہ داریوں سے الگ تھلک بناؤ سنگا رکے خوشبوؤں میں بسے چم
چم کرتے کپڑے پہنے کلدیوں میں سنہرے نگوں کا جوڑا (جیلانی بانو’’
ایوان غزل ‘‘ ص نمبر ۱۰۳ ) چمکاتی مسہری پر بیٹھی رہتی تھیں۔ یا پھر
ناولیں پڑھنے میں وقت گزرتا۔ ماماؤں سے شہر کی اہم خبروں پر تبصرہ ہوتا۔
یا پھر پردہ لگی موٹر میں بیٹھ کروہ رشتہ داروں کے ہاں ملنے چلی جاتیں۔
انھیں بالکل خبر نہ ہوئی کہ آج گھر میں امباڑے کی بھاجی پکی ہے یا پالک
کی۔ واحدحسین کا کن کن چیزوں سے پرہیز ہے۔ البتہ واحدحسین کمرے میں
آتے تو وہ نئی دلہن کی طرح سمٹ کر بیٹھ جاتیں۔ ان کی ہر خواہش پر حکم کو
بصد چشم قبول کرنے کو تیار۔ واحد حسین نے بھی بی بی کو اپنی ساری چابیاں
سونپ دی تھیں۔ یہ وہ عورت تھی جس نے پچیس برس کی عمر میں پچیس عشق
کرنے والے واحدحسین کو اپنے پاس بٹھایا تو پھر وہ کسی طرف نہ دیکھ سکے۔
مگراس ڈیوڑھی میں لا کر تین بچوں کی ماں بنا کر بھی بی بی ان کے ہاتھوں
نہیں آئی تھیں۔ (جیلانی بانو ’’ایوان غزل ص
۳۲ ص ۳۳ )
ناول میں جاگیرداری ان ماحول کو
پیش کیا گیا ہے۔ عورتیں کسی نہ کسی رُخ سے استھال کا شکار ہیں اسی وجہ سے
دبی دبی سی بغاوت کا جذبہ رکھتی ہیں۔ انہیں یہ اخساس ہونے لگتا ہے کہ عورت
کو وہ کچھ نہیں ملا جی کی وہ حقدار ہیں۔ ان کی زندگی بڑی حد تک گھریلو رہی
ہے۔ الک طرف وہ ممتا بھری ماں ہیں تو دوسری طرف سگھڑ بیوی جو ہر دم
شوہر کے آرام وآسائش کا خیال رکھتی ہیں۔ حویلیوں ، محلوں ، اور ایوانوں
میں عورتوں کی زندگی ایک مخصوص دائرے کے گرد گھومتی ہے۔
جیلانی
بانو کا دوسرا ناول ’’بارش سنگ ‘‘ ۱۹۸۴ء کراچی پاکستان سے اور ۱۹۸۵ء میں
حیدرآباد سے شائع ہوا۔ ’’بارش سنگ ‘‘کا سب سے پہلے مراٹھی میں ترجمہ
کیا گیا اور حیدرآباد سے شائع ہونے والے رسالے ’’پنج دھارا‘‘ میں اسے قسط
وار شائع کیا گیا۔ ’’بارش سنگ ‘‘کو انگریزی میں بھی ترجمہ کیا اور Hail
of Sternessکے نام سے دہلی سے شائع ہوا۔ ’’پتھروں کی بارش ‘‘کے نام
سے ہندی میں ۱۹۸۷ء میں دہلی سے شائع ہوا۔
جیلانی بانو کے ناولٹ کا مجموعہ ’’جگنواورستارے ‘‘ کے نام سے لاہواسے ۱۹۶۵ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعہ میں تین ناولٹ
شامل ہیں۔
(۱) دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پر
(۲) جگنواورستارے
(۳) رات۔
٭٭٭