صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


حقوقِ انسانی کا تحفظ

ابو البرکات اصلاحی 
جمع و ترتیب: اعجاز عبید


ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

اقتباس. انسانی جان و خون کا احترام

اس کائنات کے اول انسان آدم علیہ السلام تھے۔ وہ اللہ کے نبی بھی تھے۔ ان کے اور ان کے بعد دنیا میں جتنے بھی انبیاء آئے سبھی کے یہاں انسانی جان کے احترام کا عقیدہ و تصور موجود تھا۔ انسانوں میں سے سب سے اول قاتل آدم کے بیٹے قابیل کو اس کا شعور نہ تھا کہ قتل کے بعد بھائی کی نعش کس طرح چھپانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک کوے کو بھیج کر بھائی کی نعش کو ٹھکانے لگانے کی ترکیب بتائی تھی اس وقت بھی دوسرے بھائی ہابیل کو انسانی جان کی حفاظت و احترام کے متعلق اللہ کی ہدایت کا علم تھا۔ اسے احساس تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کسی انسان کی جان لینا اس کا نہیں رب العالمین کا حق ہے۔

اس کے حق کو اپنے ہاتھ میں لینا اللہ کے اختیارات میں مداخلت، بغاوت اور باعث گناہ و عذاب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب قابیل کی نذر بارگاہ خداوندی میں مقبول نہ ہوئی اور ہابیل کی قبول ہو گئی تو اس نے بھائی کو ضد و حسد میں ہلاک کر ڈالنے کی دھمکی دی۔ اس وقت ہابیل نے جان دے دینا گوارا کر لیا لیکن بھائی کو جان سے مار ڈالنے کی جرأت نہیں کی۔ قرآن میں ہے ہابیل نے بھائی کے اسے قتل کر دینے کی دھمکی پر جواباً کہا: اللہ متقیوں ہی کی نذر قبول کرتا ہے اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اٹھاؤں گا۔ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ آخر کار اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے لیے آسان کر دیا اور وہ اسے مار کر ان لوگوں میں شامل ہو گیا جو نقصان اٹھانے والے ہیں۔ ( مائدہ آیت: 30 )

بنی اسرائیل انبیاء کی اولاد ہیں اللہ تعالیٰ نے ان سے کئے ہوئے میثاق کی یاد دہانی کراتے ہوئے فرماتا ہے: ہم نے ان سے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو گے۔ والدین اور قرابت داروں اور یتیموں و مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرو گے۔ لوگوں کے ساتھ بھلی بات بولو گے۔ نماز قائم کرو گے زکوٰة دو گے مگر کچھ تھوڑے ہی لوگوں کے سوا تم لوگ اپنے میثاق سے پھر گئے۔ اور یاد کرو ہم نے تم سے پختہ وعدہ و عہد لیا تھا کہ تم آپس میں خون خرابہ نہ کرو گے۔ اور نہ ہی لوگوں کو گھروں سے بے گھر کرو گے۔ تمہیں یہ میثاق تسلیم تھا اور تم ہی اس کے شاہد و گواہ تھے۔

ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات انبیائی مشن کی تکمیل ہیں۔ آج نہیں، آج سے چودہ سو سال پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے شد و مد کے ساتھ انسانی خون کے احترام کا عقیدہ و تصور دنیا کے سامنے پیش کیا اور ہر ایک کے حقوق و فرائض اور ان کی ذمہ داریاں بتائیں۔ سارے انسانوں کو ایک مرد و عورت آدم و حوا کی اولاد قرار دیا۔ کالے گورے مشرق و مغرب، عرب و عجم کا فرق و امتیاز مٹا دیا اور سارے انسانوں کو عزت و امن کی زندگی گزارنے کی تعلیم دی۔ آپ نے نہ صرف انسانوں کے حقوق بتائے بلکہ جانور اور دوسری مخلوقات کے بھی حقوق بتائے اور ان پر عمل کرنے کی تلقین کی آپ نے جانوروں کے متعلق بتایا کہ ان کا حق ہے کہ انہیں پیٹ بھر کر کھلایا جائے۔ ان پر زیادہ سختی نہ کی جائے ان پر ان کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔ انہیں بھوکا پیاسا نہ رکھا جائے۔

عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے۔ تو سامنے ایک اونٹ نظر آیا جب اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو رونے لگا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے۔ اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ اونٹ کس کا ہے؟ ایک انصاری جوان آیا وہ کہنے لگا اللہ کے رسول! میرا ہے۔ فرمایا کہ تم ان جانوروں کے سلسلے میں جن کا اللہ نے تمہیں مالک بنایا ہے اللہ سے نہیں ڈرتے۔ اس اونٹ نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تو اس کو بھوکا مارتا اور تھکاتا ہے۔ ( ابوداود 2549 )

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول