صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
اپنے ہم سفر
نعیمہ ضیاءالدین
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
شبنمی رات دھیرے دھیرے اتر رہی تھی۔ رخشی نے اخبار سے نظر اٹھا کر انوار کی جانب رخ پھیرا۔ خواب گاہ کی حرارت بخش پرسکون فضاء جو تھکے ہارے انسان کو صرف رات میں ہی دستیاب ہوتی ہے اپنی آسودگی کے باعث اس لمحے کس قدر خوشگوار محسوس ہو رہی تھی۔ بالخصوص یورپ کی مسابقت بھری مشینی زندگی میں کہ جہاں انسان رفتہ رفتہ اپنے ہی پھیلائے ہوئے خواہشوں کے شیطانی جال میں غیر محسوس طریق پر الجھتا چلا جا رہا ہے۔وصیت
انوار آج کی موصول شدہ ڈاک دیکھ رہا تھا۔
’’تم ہسپتال گئے تھے فیصل کو دیکھنے....؟‘‘—— رخشی نے اخبار لپیٹ کر اس سے دریافت کیا۔
’’ہاں ——‘‘ وہ اداسی سے اثبات میں سرہلانے لگا۔
’’تو پھر....بچے کی حالت کیسی تھی——‘‘
’’بدستور——‘‘ انوار کے لہجے میں حزن کی آمیزش نمایاں تھی۔
’’جب تک کڈنی ٹرانسپلانٹ نہیں ہوتی، تب تک تو بہتری کے آثار یا امکانات مفقود ہیں——‘‘
’’انوار تم نے یہ خبر دیکھی.... اسی کو پڑھ کر مجھے فیصل کا خیال آیا تھا—— یہاں لکھا ہے کہ ایشیائی کمیونٹی میں آرگن ڈونیٹ کرنے یا خون کا عطیہ دینے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے‘‘۔
’’وہ تو ہے——‘‘ ——انوار مسکرایا—— اب میں سمجھا کہ تم کیوں ’’ول‘‘ (WILL) کے لئے اس قدر زور دے رہی ہو اور کیوں ڈونر (DONOR) کارڈ حاصل کیا ہے——‘‘
’’نہیں....!‘‘ ——رخشی نے نگاہیں جھکا لیں ’’تم اب بھی شاید پورے طور پر نہیں سمجھے——‘‘
’’اچھا——‘‘ انوار پُر خیال انداز میں سرہلانے لگا—— ’’ڈرتی ہو—— ہے نا؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’موت سے....؟‘‘
’’ہاں ....موت سے.... مجھے بچپن سے ہی تنگ یا بند جگہ کا خوف لاحق ہے۔ میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔ قبر کا۔ لحد کا اور سِلوں کے پیچھے بند ہو جانے کا—— منوں مٹی تلے دفنانے کا تصور ہی میری سانسیں روک دیتا ہے——‘‘
’’لیکن مردے سانس نہیں لیتے—— اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ دفنایا جائے یا جلایا جائے——‘‘
’’پَر زندہ کو تو پڑتا ہے نا—— اس سوچ سے ہی سانس رکتی ہے کہ موت کے بعد کیا ہو گا—— اور پھر بقول تمہارے اگر مُردے کے لئے دفنانا یا جلانا یکساں ہے تو کچھ بھی ہوتا رہے۔ آخر کیا فرق پڑتا ہے——میں چاہتی ہوں کہ مرنے کے بعد میرے تمام اعضا ڈونیٹ کئے جائیں اور باقی جسم سپرد آتش کر دیا جائے‘‘
’’ٹھیک ہے—— مردے کو تو شائد کوئی فرق نہ پڑے لیکن زندوں کو—— یعنی ان کو جو اس ڈونر کے فیملی ممبر ہیں۔ انہیں بہت فرق پڑے گا—— رخشی! تم اس شہرت یافتہ خاتون قلم کار کو کیوں بھول جاتی ہو کہ جس نے خود کو پس مرگ ایسے ہی سپرد آتش کر ڈالنے کی وصیت کی تھی اور اسے کس طرح سے ہدف ملامت بنایا گیا۔ سب سے زیادہ تنقید کرنے والی تو ایک عورت ہی تھی۔ ایسی عورت جو خود قلم کار بھی ہے۔ محض جنسیات پر لکھ لکھ کر شہرت کمانے والی عورت—— ایک ایسی قلم کار کو بھی سپرد آتش کر ڈالنے والی وصیت پر اعتراض تھا۔ عوام کا تو خیر ذکر ہی کیا—— عام روش سے ہٹ کر قدم اٹھانے کی غلطی کوئی معروف شخصیت بھی کرے تو اس کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں‘‘۔
’’کمال ہے——‘‘ رخشی کے چہرے پر جھنجھلاہٹ اور آزردگی کی پرچھائیاں لرزنے لگیں۔ سینے میں گر ہیں ڈالتے حرف لبوں پر بلبلوں کی مانند پھوٹتے چلے گئے۔
’’کم از کم انسان کو اپنی موت کے بعد تو اپنے جسم پر اختیار مل ہی جانا چاہئے—— ’’میرے آرگن میرے ہیں—— میں جو چاہوں ڈونیٹ کر دوں اور بقیہ جسم جہاں چاہوں پھینک دوں——‘‘
’’کیا ایسا ہو سکتا ہے‘‘—— انوار نے رخ پھیر کر اس کی طرف دیکھا ——’’معاشرے کے جنگل میں با اختیار شکاریوں نے اپنے ہی جیسے باقی سب انسانوں کو بہتر چارے کے طور پر اپنے حصول اقتدار کی خاطر اپنی مرضی اور خوشی کی مچان پر باندھ رکھا ہے۔ ہر جاندار کے لئے ایک مخصوص دائرہ یا حلقہ ہے جس سے باہر نہیں نکلا جاسکتا۔ اور اس سے ہٹ کر قدرت کے اصول بھی دیکھو تو اس نے اپنی ہی حدبندی کر رکھی ہے۔ حتیٰ کہ زمین کی بھی کشش ثقل ہے۔ جس سے نکلنے کا راستہ نہایت دشوار ہے——‘‘
’’لیکن زندگی کی حد تک نا—— موت کے بعد بھی زندگی کے اس خیرو شر میں حصہ داری نباہنا کہاں کا انصاف ہے——‘‘
’’جو بھی رائج ہے سورائج ہے——‘‘——انوار نے خطوط سمیٹ کر ٹیبل پر رکھے اور خود بسترپر دراز ہو گیا۔
۔۔۔۔ نا مکمل، اقتباس
***