صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


حِصار

ڈاکٹر سلیم خان

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

فاقہ مست حریت !

    اک جہان کو سونا کر کے سونامی کی لہریں تھم چکی تھیں۔ حکومت ہند کی جانب سے آسمانی آفات سے نبٹنے کی خاطر بنائے گئے اعلیٰ اختیاری کمیشن کی نشست شروع ہونے جا رہی تھی۔ لاتور میں آنے والے زَلزلے کے بعد اس کمیٹی کے قیام کا اعلان ہوا۔ گجرات کے زلزلوں کے بعد اس کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا اور سونامی کے بعد اس کی اولین رسمی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ فوجی و غیر فوجی اعلیٰ افسران، سائنسداں اور نامور سیاستدانوں پر مشتمل اس میٹنگ میں پہلے تو افسر آئے سونامی کی سی سرعت کے ساتھ اور پھر سیاست دانوں کی آمد ہوئی بعد میں آنے والی تباہ کاریوں کی طرح۔

    سب سے پہلے لوگوں نے مرنے والوں کی موت پر اپنے دکھ کا اظہار کرنے کے لیے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی لیکن یہ دراصل ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ تھی۔ چند لمحات کے اندر تمام سیاست دان ایک دوسرے پر اس طرح الزام تراش رہے تھے گویا سونامی کے لیے ان کے مخالف کے علاوہ کوئی اور ذمہ دار نہیں ہے۔ حزب اختلاف کے لوگ حکومت پر الزام لگا رہے تھے کہ سب ان کی نا اہلی اور ناکامی کا بین ثبوت ہے اور حزب اقتدار نے گجرات زلزلوں کی باز آبادکاری میں ہونے والی بدعنوانی کے نام پر حزب اختلاف پر پلٹ کر وار کرنا شروع کر دیا تھا۔ کمرے میں کہرام برپا تھا۔ سونامی کو لوگ بھول گئے تھے ایک سنیئر اعلیٰ افسر نے مداخلت کی۔ یہ اتنی بڑی آفت کے بعد ہم لوگ یہاں جمع ہوئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے آپ لوگوں نے اس سے بھی کوئی عبرت نہیں پکڑی۔ دراصل ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ مصیبت زدگان کی مدد کے لیے کیا کرنا چاہئے اور کیسے کرنا چاہئے؟ سیاست دانوں نے جب دیکھا کہ وہ خود طوفانی لہروں کی زد میں آ گئے ہیں تو وہ جھٹ سنبھل گئے اور انہوں نے کہا۔ یہ تو ٹھیک ہے لیکن ہم عوام کے نمائندے ہیں ان کے آگے جوابدہ ہیں۔ وہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ آپ لوگوں نے ہمیں اس تباہ کاری سے بچانے کے لیے کیا کیا؟ ہمیں پہلے سے اطلاع کیوں نہیں دی گئی تاکہ ہم اپنا بچاؤ کر سکیں۔ یہ سن کر سرکاری افسر گھبرا گئے۔ انہوں نے کہا۔ بھئی یہ تو ایسے آناً فاناً میں آ گیا کہ خود ہمیں بھی پتہ نہ چلا تو ہم دوسروں کو کیسے اطلاع دیتے۔ اس پر ایک اور سیاست دان بول پڑے۔ آپ جھوٹ کہتے ہیں یا علم نہیں رکھتے۔ دنیا کے ۲۶ ممالک کو اس کی اطلاع مل چکی تھی۔ انہیں کیسے پتہ چل گیا اور ہمارے سائنسداں کیوں سوئے رہے۔

    ایک سرکاری سائنس داں نے کہا یہ تو زیادتی ہے کہ صرف ہمیں کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ہم کیا سارا ملک سویا رہا۔

    ایک فوجی افسر کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا۔ یہ بات غلط ہے کہ اطلاع نہیں ملی۔ انڈمان نکوبار میں موجود ہمارے فوجی اڈے کی تباہی کی اطلاع ہم نے خود محکمہ موسمیات کو دی لیکن اس کے باوجود وہ اس کا کوئی استعمال نہ کر سکے۔

    ایک سیاست دان بولے۔ لیکن محکمہ موسمیات کے لوگ تو بڑی ڈینگیں مارتے ہیں وہ تو کہتے ہیں ہمارے پاس اس کام کے لیے سیٹیلائیٹ ہے۔ بڑے با صلاحیت لوگ ہیں تو ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ لوگ فوجی اڈے کو مطلع کرتے لیکن ہوا اس کے برعکس اور اس کے باوجود انہوں نے اس اطلاع کا کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔

    محکمہ موسمیات کے سائنس دان پھر غصہ ہو گئے۔ وہ کہنے لگے۔ دیکھئے ہمارا سٹیلائیٹ بہت پرانا ہو گیا ہے۔ نئے کے لیے گرانٹ مانگے ہوئے دو سال گذر گئے ہیں لیکن اس پر صرف وعدہ ہی ہاتھ آیا۔ وزیر اعظم نے نئی لیباریٹری کا سنگ بنیاد تو رکھ دیا لیکن بجٹ پر دستخط نہیں کیے۔ اب ہم کیا کریں۔

    دوسرا سیاست دان بولا۔ اگر پرانی سبھی مشینیں کسی کام کی نہیں ر ہیں تو انہیں پھینکو اور آپ لوگ بھی اپنے گھر جاؤ اور جب بجٹ پاس ہو جائے تو تنخواہ لینے کے لیے آ جانا۔

    اب تو افسران بے حد بگڑ گئے۔ انہوں نے کہا۔ آپ اپنی زبان کو لگام دیں۔ ہماری تنخواہ عوام کے ٹیکس سے آتی ہے کوئی آپ کی جیب سے نہیں آتی اور پھر آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ یہ طوفان رات کے آخری پہر میں آیا اور تباہ کاری صبح صبح شروع ہوئی۔ ہمارے افسران کے دفتر آنے تک سب کچھ ہو چکا تھا۔

    یہ بات سن کر ایک بہت زبردست قہقہہ بلند ہوا اور ایک صاحب کہنے لگے۔ ہاں ہاں ایسا کرتے ہیں آج کی نشست میں ایک قرار داد پاس کر کے آسمان والے کو بھیج دیتے ہیں کہ آئندہ آسمانی آفت دفتری اوقات کے درمیان ہی آئے۔ اس کے علاوہ نہ آئے۔

    دوسرے نے کہا۔ ارے یہ لوگ دفتر کے اوقات میں بھی مشکل ہی سے دفتر میں پائے جاتے ہیں۔ ایک تو گھر سے آتے نہیں اور آتے ہیں تو چائے خانہ کی رونق بڑھاتے رہتے ہیں۔

    پھر ایک سرکاری ملازم غصہ ہو گیا اس نے کہا۔ آخر آپ لوگوں نے اپنے آپ کو سمجھ کیا رکھا ہے۔ ہمارے ہاتھ میں کوئی اختیارات تو ہیں نہیں کہ ہم اطلاعات کو براہ راست عوام تک پہنچا سکیں۔ ہم نے وزیر سائنس ٹکنالوجی کو اطلاع دی جس کے تحت ہمارا محکمہ آتا ہے۔ اس نے محکمہ مواصلات و اطلاعات سے رابطہ قائم کیا اور اس نے پھر سرکاری ٹیلی ویژن کو بتلایا۔ اب اس سب میں وقت تو لگتا ہی ہے۔

    وہ تو ٹھیک ہے۔ فوجی افسر بولا۔ لیکن آپ نے اطلاع سابق وزیر کو بھجوا دی۔ آپ اتنا بھی نہیں جانتے کہ نئی حکومت آ چکی ہے اور ایک نئے صاحب کو یہ وزارت دے دی گئی ہے۔

    جی ہاں ہم یہ جانتے ہیں۔ سرکاری ملازم نے ڈھٹائی سے کہا۔ لیکن سابق وزیر کم از کم طبیعات کے پروفیسر تھے ان کی سمجھ میں تو تھوڑی بہت بات آتی بھی تھی اب نئے صاحب تو وکیل ہیں ان کے لیے تو یہ سب کالا اکشر بھینس برابر تھا۔

    تو کیا اب آپ تمام اطلاعات سابق وزراء کو ہی دیتے رہیں گے؟

    وزیر سائنس ٹکنالوجی نے کہا۔ نہیں ایسی بات نہیں۔ یہ بات تو برسبیل تذکرہ آ گئی۔ خیر اب جو ہو چکا سو چکا۔ تباہی کی اطلاع حاصل کرنے اور تقسیم کرنے سے زیادہ ہمارے اختیار میں اور ہے ہی کیا؟ اور ایسا کرنے سے تباہ کاری رک تو نہ سکتی تھی؟

    فوجی بولا۔ جی ہاں رک تو نہ سکتی تھی لیکن اگر متاثرین کو پتہ چل جاتا تو وہ حفظ ماتقدم کے طور پر اپنے آپ کو بچانے کے لیے کچھ تو کرتے۔

    خیر اب آگے کی سوچیں۔

    اس بیچ چپراسی نے آ کر اطلاع دی کہ ناشتہ لگ گیا ہے اور سب لوگ ناشتہ کی جانب بڑھے بات آگے بڑھی اور کھانے پینے میں اس قدر گھل مل گئے گویا ابھی کچھ دیر قبل سونامی کی قہر ناکی آئی ہی نہ تھی۔

    ناشتہ سے لوٹنے کے بعد کمیٹی کے چیرمن نے بتلایا کہ امریکی حکومت کی جانب سے امداد کی پیش کش کی گئی اور وزیر اعظم کا یہ پیغام ہے اس پیش کش پر کہ مثبت و منفی اثرات پر بھی ہمیں غور و فکر کر کے اپنی تجاویز ان تک پہنچانی ہے اور اس کام کو ترجیحی طور پر کرنا ہو گا۔ اس لیے کہ انہیں امریکہ کو جواب دینا ہے۔

    اب ایک نئے ایجنڈا کا اضافہ ہو گیا تھا۔ سب لوگ آپس کے اختلافات بھلا کر اس پر سنجیدہ ہو گئے۔ سرکاری افسر نے کہا۔

    اس میں ایسی کون سی نئی بات ہے۔ دنیا بھر کے ممالک سونامی کے مصیبت زدگان کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک امریکہ بھی ہے۔ ہمیں اس کی مدد کا استقبال کرنا چاہئے۔

    کرنل صاحب نے اعتراض کیا۔ نہیں یہ معاملہ اس قدر آسان نہیں ہے۔ نکوبار میں ہمارا فوجی ٹھکانہ تھا امریکی جاسوس وہاں امداد کے بہانے آئیں گے اور ہمارا سارا راز اور خفیہ نقشہ اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ اس لیے امریکہ کی ا س پیش کش کو ٹھکرا دینا چاہئے۔

    کرنل صاحب کی بات پر ایک سیاست دان نے اختلاف کیا اور کہا۔ یہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں اس لیے پہلے کئی بار ہم امریکی امداد لے چکے ہیں۔ ایسا اعتراض پہلے تو کبھی نہیں آیا۔

    کرنل صاحب بولے۔ اس وقت کی بات اور تھی حالانکہ ویت نام اور کوریا میں امریکی فوجی برسر جنگ تھے لیکن ان کی لڑائی سوویت یونین اور اس کے حواریوں تک محدود تھی۔ اب عراق اور افغانستان کو جس طرح امریکہ نے اپنی جارحیت کا شکار کیا ہے اس کے بعد امریکی انتظامیہ پر بالکل اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ ان لوگوں کی نیت ٹھیک نہیں ہے اور ایران و شام کے بارے میں یہ اپنے ناپاک ارادوں کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ ایسے میں کسی بھی قسم کا خطرہ مول لینا دانش مندی کی بات نہیں ہے۔

    اب پھر ایک اور سرکاری بابو اٹھے اور کہنے لگے۔ شاید ہم لوگ کچھ زیادہ ہی اندیشوں کا شکار ہو رہے ہیں دراصل امریکہ نے سونامی جیسے آفات کا پتہ لگانے والے تنصیبات کی پیش کش کی ہے۔ ہم انہیں حاصل کر کے اپنے ساحلی علاقوں پر لگوا سکتے ہیں۔

    اس پر اسرو کے سائنس داں اُکھڑ گئے انہوں نے کہا۔ امریکہ کیا سمجھتا ہے ہم یہ نہیں کر سکتے ہم سب نا اہل ہیں۔ نہیں یہ نہیں ہوسکتا۔ اس کام کو کرنے کی صلاحیت ہمارے اندر موجود ہے ہم خود ایسی تنصیبات قائم کر سکتے ہیں اور جیسا کہ کرنل صاحب نے کہا چونکہ امریکی مشینوں پر ان کا اختیار ہو گا وہ اس کے ذریعہ سے ہماری جاسوسی کریں گے۔ یہ بات ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

    کمیٹی میں موجود امریکہ نواز حضرات کو ان مشوروں سے کافی الجھن ہو رہی تھی۔ ان میں سے ایک صاحب اٹھے اور انہوں نے امریکہ کی انسان دوستی پر تقریر کرنے کے بعد کہا کہ اگر کوئی انسانی ہمدردی کے ناطے ہماری مدد کے لیے آتا ہے تو اس کے تعاون کو ٹھکرانا یہ نہایت غیر اخلاقی اور غیر انسانی حرکت ہے۔ ہمیں امریکہ کی انسانی ہمدردی کو بلا وجہ شکوک و شبہات کی نظروں سے نہیں دیکھنا چاہیے۔

    کمیٹی میں موجود دائیں بازو کے ایک دانشور نے قہقہہ لگایا اور کہنے لگے۔

     امریکہ اور انسانی ہمدردی !اجی جناب جتنے لوگ سونامی کے ذریعہ ہلاک ہوئے ہیں اس سے زیادہ تعداد میں معصوم عراقی امریکی بمباری کا شکار ہوئے۔ اگر واقعی امریکہ کو انسانوں سے ہمدردی ہوتی تو وہ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر بمباری نہ کرتا۔یہ سب کہنے کی باتیں ہیں امریکہ سے کہا جائے کہ وہ ان لوگوں کی مدد کر کے اپنے گناہوں کا کفّارہ ادا کر ے جن پر اس نے بم برسائے ہیں اور ہمیں اپنی نظر کرم سے معاف رکھے اس لئے کہ امریکہ کی روایت رہی ہے کہ وہ جسے برباد کرنا چاہتا ہے پہلے اس سے دوستی کرتا ہے۔ طالبان اور صدام دونوں امریکہ کے دوست تھے اور دونوں اس کے مظالم کا شکار ہوئے۔ ہمیں دوسروں سے عبرت پکڑنا چاہیے۔

     اب وزارتِ خارجہ کے نائب وزیر اٹھے انھوں نے کہا۔ یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آج امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے اور اس کی امداد کو ٹھکرا نے کی سیاسی قیمت کافی مہنگی ہو سکتی ہے۔ یہ معاملہ ہمیں مہنگا پڑ سکتا ہے اس لئے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی نے امداد کا ہاتھ بڑھا یا ہو اور اسے ٹھکرا دیا گیا۔

    اس کے جواب میں کرنل صاحب نے کہا۔ عزت مآب وزیر خارجہ کی تجویز میں دو باتیں ہیں۔ دوسری تو یہ کہ ایسا کبھی نہیں ہوا یہ بات خلاف حقیقت ہے۔ گیارہ ستمبر کے بعد سعودی عرب کے شہزادے ولید بن طلال بن عبدالعزیز کی امداد کا چیک نیو یارک کے گورنر نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اگر خود امریکی انتظامیہ یہ کر سکتا ہے تو اسے دوسروں کی جانب سے اس طرح کے رویے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے اور ان کی پہلی بات میں دھمکی ہے۔ اس دھمکی کے جواب میں میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم آزادی کی قیمت پر بھوک نہیں مٹا سکتے۔ ہم اپنی آزادی کے تحفظ کی خاطر فاقہ کشی کو برداشت کر لیں گے۔ ہماری نظر میں آزاد بھوکا پیٹ بھرے غلام سے بہتر ہے۔

    میٹنگ ختم ہو گئی۔

     دوسرے روز اخبارات میں خبر چھپی کہ حکومت ہند نے امریکی امداد کو ٹھکرا دیا اور امریکی انتظامیہ کا یہ رد عمل بھی چھپا کہ کوئی بات نہیں ہم انہیں فاقہ کش غلام بنا لیں گے۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول