صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ہندستان 1857ء کے بعد
علی احمد فاطمی
ؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ 1857ء کے انقلابی ہنگامے جس کو انگریز مورخین محض غدر کے نام سے پکارتے ہیں، ہندستانیوں کی سیاسی، سماجی اور ادبی ارتقا میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ہنگامہ تھا جو انگریز حکومت کے خلاف دبے دبے ابھرا اور دیکھتے دیکھتے ایک آگ برسا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس آگ کی لپیٹ میں خود انقلابی آ گئے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس آگ کا ردِّ عمل جن کے خلاف بغاوت کی گئی تھی، ان پر کچھ نہ ہوا ہو۔ ردِّ عمل ہوا اور ایک ایسا ردِّ عمل جس نے بیج تو 1857ء میں بویا لیکن پھل اس کو 1947ء میں ملے۔ ڈاکٹر خلیق احمد نظامی 1857ء کا تاریخی روزنامچہ کے مقدمے میں فرماتے ہیں :
1857ء ہندستان کی سیاسی اور ثقافتی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ قدیم اور جدید کے درمیان یہی وہ منزل ہے جہاں سے ماضی کے نقوش پڑھے جا سکتے ہیں اور مستقبل کے امکانات کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
خلیق احمد نظامی کے قول کے مطابق غدر قدامت اور جدیدیت کے درمیان ایک کڑی ہے۔ ہم اس وقت غدر کے ماضی سے درگذر کر کے اس کے مستقبل کی طرف رخ کرتے ہیں، جہاں ناکامی تو تھی لیکن اس ناکامی کی تہہ میں ایک دبی ہوئی بغاوت نے دوبارہ کیسے کیسے روپ اختیار کیے اور ایک نیم بیدار ہندستان کس انداز سے ہچکولے لیتا ہوا رفتہ رفتہ اپنے پورے تجربات کے ساتھ ایک بار پھر دریائے بغاوت میں کود پڑا۔ 1857ء کی بغاوت جو ہندستان کی تاریخ میں ایک عہد آفریں واقعہ ہے، ایک تاریخی دور کا خاتمہ کرتی ہے اور ایک نئے دور کا آغاز بھی۔ بقول پی۔ سی۔ جوشی:
جہاں تک ہندستان کا تعلق ہے بغاوت ناکام ہوئی لیکن ہندستان کو وہ تجربہ حاصل ہواجس سے وہ نئے خیالات کے ساتھ نئی بنیادوں پر جدید ہندستانی قومی تحریک تعمیر کرنے کے قابل ہو گئے اور 1857ء کے اسباق بے بہا ثابت ہوئے۔ فریقوں نے 1857ء کے تجربے سے سبق حاصل کیے اور بعد میں ان سے استفادہ کیا۔ انگریز فاتح تھے، انھوں نے جلد اقدامات کیے۔ ہم مفتوح تھے، ہم نے زیادہ وقت لیا۔
بغاوت تیزی سے اٹھی اور تھوڑے ہی عرصے میں دب گئی۔ لیکن اس کے اثرات بہت دنوں تک قائم رہے۔ فاتح اور مفتوح دونوں کو مکمل ہوش آ چکا تھا۔ فاتح کو یہ احساس ہوا کہ کس کو اپنے ساتھ لے کر اور کس کونہ لے کر حکومت کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ مفتوح کے خیالات میں بڑی تیزی سے تبدیلی آئی۔ بعض ہمت ہار گئے اور اپنے فائدے و نقصان کے تحت اپنے آپ کو انگریزی حکومت کے سپرد کر دیا۔ لیکن اس بغاوت سے بہت سے لوگوں کو بڑے تلخ تجربات بھی ہوئے، انھیں ہوش آچکا تھا اب وہ اور منظم طور پراپنے شکست خوردہ احساسات کو جگانے کی کوشش کر رہے تھے جس کا لازمی نتیجہ تھا کہ فاتحین کے خلاف بغاوت کا جذبہ جاگ اٹھے۔ انگریزی حکومت نے جس کے اقتدار کو اب سو سال ہو رہے تھے اس نے ہندستانیوں اور یہاں کی بٹی ہوئی ریاستوں اور ان کی کمزوریوں کو شدّت سے پہچان لیا تھا۔ یہاں بسنے والی قوم اور فرقے جو اپنا الگ ایک مزاج اور اپنی الگ ایک تہذیب رکھتے تھے۔ ان کی خوبیوں اور خرابیوں کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ بغاوت کے بعد اس نے اپنے آئین میں بڑی تبدیلیاں کیں۔ اس نے تمام اہل ریاست کے قانون میں نرمی پیدا کی اور ان کو اپنے بس میں کرنا شروع کر دیا۔ ایک انگریز مورخ پی۔ ای۔ رابرٹس(P.E.Roberts)کا خیال ہے:
"چونکہ والیانِ ریاست نے بغاوت کے سیلاب کو روک کر نمایاں خدمات انجام دی تھیں اس لیے ریاستوں کو فصیل کے طور پر قائم رکھنا اسی وقت سے برطانوی سلطنت کا اصول رہا ہے۔ "
٭٭٭