صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ہجر تو روح کا موسم ہے
بانی
(’حرفِ معتبر‘ کی غزلیں)
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
پتّہ پتّہ بھرتے شجر پر ابر برستا دیکھو تم
منظر کی خوش تعمیری کو لمحہ لمحہ دیکھو تم!
مجھ کو اس دلچسپ سفر کی راہ نہیں کھوٹی کرنی
میں عجلت میں نہیں ہوں یارو، اہنا رستہ دیکھو تم
آنکھ سے آنکھ نہ جوڑ کے دیکھو سوۓ اُفق اے ہم سفرو!
لاکھوں رنگ نظر آئیں گے، تنہا تنہا دیکھو تم!
آنکھیں٬ چہرے٬ پاؤں سبھی کچھ بکھرے پڑے ہیں رستے میں
پیش روؤں پر کیا کچھ بیتی، جا کے تماشہ دیکھو تم
کیسے لوگ تھے٬ چاہتے کیا تھے کیوں وہ یہاں سے چلے گۓ
گُنگ گھروں سے کچھ مت پوچھو، شہر کا نقشہ دیکھو تم
میرے سر ہے شراپ کسی کا، چھوڑ دو میرا ساتھ یہیں
جانے اس ویران ڈگر پر آگے کیا کیا دیکھو تم
اب تو تمھارے بھی اندر کی بول رہی ہے مایوسی
مجھ کو سمجھانے بیٹھے ہو٬ اپنا لہجہ دیکھو تم!
پلک پلک من جوت سجا کر کوئ گگن میں بکھر گیا
اب ساری شب ڈھونڈو اس کو، تارا تارا دیکھو تم
بھاری رنگوں سے ڈرتا سا، رنگ جدا اک ہلکا سا
صاف کہیں نہ دکھائ دے گا، آڑا ترچھا دیکھو تم
پانی سب کچھ اندر اندر دور بہا لے جاتا ہے۔۔۔۔
کوئ شے اس گھاٹ نہ ڈھونڈو، ساتوں دریا دیکھو تم
جیسے میرے سارے دشمن مرے مقابل ہوں اک ساتھ
پاؤں نہیں آگے اٹھ پاتے، زور ہوا کا دیکھو تم
ابھی کہاں معلوم یہ تم کو ویرانے کیا ہوتے ہیں
میں خود ایک کھنڈر ہوں جس میں وہ آنگن آ دیکھو تم
ان بن گہری ہو جاۓ گی یوں ہی سمے گزرنے پر
اس کو منانا چاہوگےجب، بس نہ چلے گا۔۔۔ دیکھو تم
ایک ایسی دیوار کے پیچھے، اور کیا کیا دیواریں ہیں
اِک دیوار بھی راہ نہ دے گی، سر بھی ٹکرا دیکھو تم
ایک اتھاہ گھنی تاریکی کب سے تمھاری راہ میں ہے
ڈال دو ڈیرہ وہیں، جہاں پر نور ذرا سا دیکھو تم
سچ کہتے ہو! ان راہوں پر چَین سے آتے جاتے ہو
اب تھوڑا اس قید سے نکلو، کچھ ان دیکھا دیکھو تم
خالی خالی سے لمحوں کے پھول ملیں گے پوجا کو
آنے والی عمر کے آگے دامن پھیلا دیکھو تم
ہم پہنچے ہیں بیچ بھنور کے روگ لۓ دنیا بھر کے
اور کنارے پر دنیا کو لَوٹ کے جاتا دیکھو تم
اِک عکسِ موہوم عجب سا اِس دھندلے خاکے میں ہے
صاف نظر آۓ گا تم کو، اب جو دوبارہ دیکھو تم
اپنی خوش رقدیری جانو، اب جو راہیں سہل ہوئیں
ہم بھی اِدھر ہی سے گزرے تھے، حال ہمارا دیکھو تم
***
سر بسر ایک چمکتی ہوئ تلوار تھا میں
موجِ دریا سے مگر بر سرِ پیکار تھا میں
میں کسی لمحۂ بے وقت کا اک سایہ تھا
یا کسی حرفِ تہی اسم کا اظہار تھا میں
ایک اک موج پٹخ دیتی تھی باہر مجھ کو
کبھی اِس پار تھا میں، اور کبھی اُس پار تھا میں
اُس نے پھر ترکِ تعلّق کا بھی موقع نہ دیا
گھٹتے رشتوں سے کہ ہر چند خبردار تھا میں
اس تماشے میں تاثّر کوئ لانے کے لۓ
قتل، بانیؔ، جسے ہونا تھا وہ کردار تھا میں
٭٭٭