صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
حجاب فی الاسلام
عبدالحئی عابد
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ستراور حجاب کا مفہوم
ا الستر:
لفظ ’’الستر‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’’چھپانا‘‘،’’پوشیدہ رکھنا‘‘ ہے ۔ لسان العرب میں ہے :
سَتَرَ الشَّیئَ یَسْتُرُہٗ وَ یَسْتِرُہٗ سَتْراً وَ سَتَراً: اَخْفَاہُ،
اَنشد
ابن الاعرابی : وَیَسْتُرُوْنَ النَّاسَ مِنْ غَیْرِ سَتَر والستر،بالفتح
:مصدر سَتَرت الشیء اَسْتُرُہ اذا غطَّیتہ فاسْتَتَر ھو۔ وَ تَسَتَّرَ ای
تَغَطَّی۔ و جَارِیَۃٌ مُسَتَّرَۃٌ ای مُخَدَّرَۃٌ۔ 1
الحجاب:
لفظ ’’الحجاب‘‘ بھی پردہ، آڑ،چھپانے اور پوشیدہ رکھنے
کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ ابن منظور لکھتے ہیں :
اَلْحِجَابُ: اَلْسَّتْرُ
حَجَبَ الشَّیئَ یَحْجُبُہٗ حَجْباً وَ حِجَاباً وَ حَجَّبَہ: سَتَرَہٗ۔
وَ قَدْ اِحْتَجَبَ وَ تَحَجَّبَ اِذَا اکْتنَّ مِنْ وَّرَاءِ حِجَابٍ۔
وَاِمْرَاَء ۃٌ مَّحْجُوْبَۃٌ: قَدْ سُتِرَتْ بِسِتْرٍ۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے :
واذا سَاَلْتُمُوْھُنَّ مَتٰعاً فَسْئَلُوْھُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَاب۔
(الاحزاب۳۳:۵۳)
’’ اور جب تمھیں (نبی کی بیویوں سے
)کوئی چیز مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔
‘‘
حجاب کی ضرورت و اہمیت
اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو ارادے اور اختیار کی قوت
دے کر خلیفہ کی حیثیت سے اس زمین میں اقتدار اور اختیار
دینے کا ارادہ کیا تو فرشتوں نے ایک مکالمے
کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے اس پروگرام پر
اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے انسان کی
کچھ مخصوص صلاحیتوں کا مظاہرہ ان کے سامنے کیا تو وہ
اللہ کے حکم کے مطابق انسان کے سامنے سر تسلیم خم
کر گئے ۔ صرف شیطان نے تکبر اور طغیان کا راستہ اختیار کیا اور اللہ
کے حضور دائمی لعنت کا حق دار ٹھہرا۔ اللہ تعالیٰ نے اس
واقعے کا ذکر اس طرح سے کیا ہے :
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰئِکَۃِ اسْجُدُوْا
لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْا اِلاَّ اِبْلِیْسَ، اَبیٰ وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ
مِنَ الْکٰفِرِیْنَ۔
(البقرۃ ۲:۳۴)
’’اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا
کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔ اس
نے انکا ر کیا اور تکبر کیا اور کافروں میں ہو
گیا۔ ‘‘
چنانچہ اللہ نے شیطان سے اس
کا مقام و مرتبہ چھین لیا اور اسے راندہ درگاہ کر کے
وہاں سے نکال دیا۔ اس پر شیطان نے اللہ سے قیامت
تک کے لیے مہلت حاصل کر لی، تاکہ انسان کو اللہ کے
راستے سے بھٹکا سکے ۔ اللہ نے اسے مہلت
دینے کے ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ انسانوں میں
سے جو تیر ا کہنا مانے گا میں ضرور تم سب کو جہنم
سے بھر دوں گا۔3
اللہ تعالیٰ
نے شیطان کو وہاں سے نکالنے کے بعد آدم اور
حوا کو حکم دیا کہ تم اس باغ میں رہو اور جہاں سے جو چا
ہو کھاؤ پیو، لیکن اس درخت کے پاس مت جانا ورنہ تم ظالموں
میں سے ہو جاؤ گے ۔ چنانچہ شیطان جو ان کی تاک میں تھا
اس نے دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا اور ان
کو اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کیا۔ قرآن مجید نے اس واقعے کا
ذکر اس طرح سے کیا ہے :
فوسوس لھما الشیطٰن لیبدی لھما ما وٗرِیَ عنھما من سَوْاٰتِھِمَا۔
(سورۃ الاعراف۷:۲۰)
’’پھر شیطان نے ان دونوں کے
دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرم گاہیں جو ایک
دوسرے سے پوشیدہ تھیں دونوں کے روبرو
بے پردہ کر دے ۔ ‘‘
آدم اور حوا شیطان
کے بہکاوے میں آ گئے اور اللہ کے قانون کی
خلاف ورزی کر بیٹھے۔ اس کے بعد اپنی غلطی پر شرمندہ ہوئے ۔ جس پر
اللہ نے ان پر اپنی رحمت اور بخشش کی اور ان کی غلطی کو معاف کر
دیا۔ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان کا سب سے
پہلا وار جو بنی نوع انسان پر ہوا وہ یہی تھا کہ وہ ان کو بے پردہ
کر دے ۔ اللہ نے انسان پر جو حدود و قیود عائد کی تھیں ان کا
مقصد یہی تھا کہ دونوں کے درمیان پردہ برقرار رہے ۔ مگر شیطان
نے اس پردے پر وار کر کے انسان کو اس پاکیزہ مقام
سے نیچے دھکیل دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
فلما ذاقا الشجرۃ بَدَتْ لَھُمَا سَوْاٰ تُھُمَا
و طَفِقَا یَخْصِفٰنِ علیھما من وَرَقِ الْجَنَّۃِ۔
(سورۃ الاعراف۷:۲۲)
’’پس ان دونوں نے جب درخت کو چکھا،
دونوں کی شرم گاہیں ایک دوسرے کے سامنے بے
پردہ ہو گئیں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے
پنے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے ۔ ‘‘