صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
خمار ، جلباب اور نقاب کی شرعی حیثیت
نا معلوم
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
’فیروز اللغات( اردو جامع)‘ میں لفظ ’اوڑھنی‘ کا ترجمہ : چھوٹا دوپٹا
لہذا تعجب کی بات نہیں کہ جو لوگ آیت ِ قرآنی کے اردو ترجمہ پر اکتفاء کرتے ہیں ، ان کا عمل بھی اسی کے مطابق ہوگا ۔ یعنی ہماری کئی بہنیں اس خوش فہمی میں گھر سے باہر دوپٹے لے کر نکلتی ہیں کہ وہ اللہ کے حکم کی تعمیل کر رہی ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔ عام طور پر دوپٹا ایک باریک کپڑا ہوا کرتا ہے جو بالوں کو بھی صحیح طرح سے نہیں چھپاتا ۔ مسئلہ کا حل یہ ہے کہ اس لفظ کے صحیح ترجمہ سے آشنا ہوا جائے۔
’خُمُر‘
خِمَار کی جمع ہے ۔ اس کپڑے کو کہتے ہیں جو عورت سر پر استعمال کرے
اور اس سے گلا اور سینہ بھی چھپ جائے۔ (معارف القرآن)
لہذا
یہ خمار معاشرہ میں عورت کے لباس کا اوپر والا وہ حصہ ہے جس سے اس کے سر
، گردن، سینے اور چھاتی کا پردہ ہوسکے۔ جہاں تک حکم کا
تعلق تو یہ آیت ِ مبارکہ اس کی فرضیت پر دلالت کر رہی ہے کیونکہ اس کے آخر
میں ’توبوآ ‘ کا استعمال ہوا ہے ، یعنی اس حکم کو ’ توبہ
کرنے‘ سے مربوط کیا گیا ہے جو کہ اس فعل کے فرض ہونے کے قرینہ ہے۔
توبہ
کی تعریف: کسی گناہ پر ندامت کے ساتھ اللہ سے مغفرت مانگنا اور
آئندہ اس کے پاس نہ جانے کا عزم مصمم کرنا۔ (معارف القرآن)
آیت
کا معنیٰ یہ ہے کہ اگر احکامِ مذکورہ میں کسی وقت کوتاہی ہو جائے تو توبہ
کی جائے اور یہ انہی باتوں میں ہوتی ہے جن کے کرنے یا نہ کرنے میں گناہ
ہو۔ معلوم ہوا کہ خمار نہ پہننا توبہ کا مقتضی ہے ، جو
کہ اس فعل کی فرضیت کا قرینہ ہے۔
چنانچہ عورت کے لباس کے اوپر والے حصہ ، خمار، کے
پہننے کی فرضیت ثابت ہوئی۔ جہاں تک لباس کے نچلے حصہ یعنی جلباب کا
تعلق ہے تو اس کا بیان کچھ یوں ہے:
دوسری آیت ِ مبارکہ میں لفظ ِ ’جلابیب‘ (جلباب کی جمع) کا اردو
ترجمہ ’چادریں‘ سے کیا گیا ہے جو کہ ہرگز اس لفظ کی مکمل ترجمانی نہیں
کرتا۔
’فیروز اللغات (اردو جامع )‘میں لفظ چادر کا
ترجمہ: مستطیل (لمبا) اور مربع(چوکور) مگر دبیز (موٹا) کپڑا جو سر کے اوپر
یا دوپٹے کی جگہ لیا جائے۔
جب کہ جلباب کا صحیح
ترجمہ ہے: پورے جسم کو ڈھانپنے والا لباس ، کپڑوں کے اوپر
پہنا جانے والا لباس۔ (قاموس الوحید)
٭٭٭