صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


ہوا کا تخت

ماجد صدیقی


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                            ٹیکسٹ فائل

غزلیں


‮بے معنی بے کیف ہوئی ہے آنکھ مچولی تاروں کی

نکلا چاند بھی گہنایا ہے سازش سے اندھیاروں کی

ژالے، سیل، بگولے، بارش، شور مچاتی سرد ہوا

لمبی ہے فہرست بڑی اِس گلشن کے آزاروں کی

ایوانوں کی چبھتی چھاؤں ہے ہر سمت گھروندوں پر

رہگیروں کے ماتھوں پر ہے دُھول لپکتی کاروں کی

دعوے دار وفاؤں کے تو پہنچے، نئی مچانوں پر

جانے کس پر آنکھ لگی ہے ہم اخلاص کے ماروں کی

رُت رُت کا فیضان مقدّر ٹھہرے اُن ہی لوگوں کا

رکھتے ہیں جو اہلِ نظر پہچان بدلتے دھاروں کی

اُس کے وصل کا قصّہ ہم نے جن لفظوں میں ڈھالا ہے

در آئی اُن لفظوں میں بھی حدّت سی انگاروں کی

جب تک خون میں دھڑکن ہے جب تک یہ نطق سلامت ہے

ٹوٹ نہیں سکتی ہے ماجدؔ ہم سے سانجھ نگاروں کی

***

پہنچے رنج رقیب سے یا راحت ہو یار سے

ممکن ہو جس طور بھی نکلوں اِس آزار سے

تجھ سے مرا ملاپ ہے نکھرا موسم چیت کا

پھول کِھلیں گے دیکھنا قُرب کے اِس تہوار سے

نکلی دُھوپ شباب کی تو پھر کیسی دُوریاں

وہ صحنوں کا پھول ہے جھانکے گا دیوار سے

آنکھ مچولی کھیلتا نت کھڑکی کے اَبر سے

آئے گا وہ چاند بھی پاس کبھی اُس پار سے

بے غالب بے میرؔ ہو ماجدؔ تمہیں قرار کیوں

بچھڑے ہوئے غزال ہو تم ہرنوں کی ڈار سے

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                             ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول