صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
انتخاب حسرت موہانی
حسرت موہانی
ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
اور تو پاس مرے ہجر میں کیا رکھا ہے
اک ترے درد کو پہلو میں چھپا رکھا ہے
دل سے ارباب وفا کا ہے بھلانا مشکل
ہم نے ان کے تغافل کو سنا رکھا ہے
تم نے بال اپنے جو پھولوں میں بسا رکھے ہیں
شوق کو اور بھی دیوانہ بنا رکھا ہے
سخت بے درد ہے تاثیر محبت کہ انہیں
بستر ناز پہ سوتے سے جگا رکھا ہے
آہ وہ یادیں کہ اس یاد کو ہو کر مجبور
دل مایوس نے مدت سے بہلا رکھا ہے
کیا تامل ہے مرے قتل میں اے بازوئے یار
اک ہی وار میں سر تن سے جدا رکھا ہے
حسن کو جور سے بیگانہ نہ سمجھ، کہ اسے
یہ سبق عشق نے پہلے ہی پڑھا رکھا ہے
تیری نسبت سے ستم گر ترے مایوسوں نے
دل حرماں کو بھی سینے سے لگا رکھا ہے
کہتے ہیں اہل جہاں درد محبت جس کو
نام اسی کا مضطر نے دوا رکھا ہے
نگہ یار سے پیکان قضا کا مشتاق
دل مجبور نشانے پہ کھلا رکھا ہے
اسے کا انجام بھی کچھ سوچ لیا ہے حسرت
تو نے ربط ان سے جو درجہ بڑھا رکھا ہے
٭٭٭
جہاں تک ہم ان کو بہلاتے رہے ہیں
وہ کچھ اور بھی یاد آتے رہے ہیں
انہیں حال دل ہم سناتے رہے ہیں
وہ خاموش زلفیں بناتے رہے ہیں
محبت کی تاریکی یاس میں بھی
چراغ ہوس جھلملاتے رہے ہیں
جفا کار کہتے رہے ہیں جنہیں ہم
انہیں کی طرف پھر بھی جاتے رہے ہیں
وہ سوتے رہے ہیں الگ ہم سے جب تک
مسلسل ہم آنسو بھاتے رہے ہیں
بگڑ کر جب آئے ہیں ان سے تو آخر
انہیں کو ہم الٹے مناتے رہے ہیں
وہ سنتے رہے مجھ سے افسانہ غم
مگر یہ بھی ہے مسکراتے رہے ہیں
نہ ہم ہیں نہ ہم تھے ہوس کار حسرت
وہ ناحق ہمیں آزماتے رہے ہیں
٭٭٭