صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


اردو ڈرامہ اور آغا حشر

ڈاکٹر انجمن آرا  انجمؔ

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                 ٹیکسٹ فائل

اردو ڈرامے کا آغاز وارتقا

ہندوستان میں ڈرامے کی روایت قدیم بھی ہے اور عظیم بھی۔ اس کی  ابتدا کی نشان دہی چوتھی صدی قبل مسیح کی جاتی ہے ۔ ڈراما ہند آریائی تہذیب کا ایک اہم جزو رہا ہے ۔ قدیم آریائی  تہذیب جب اپنے عروج پر تھی تو اس کے ساتھ سنسکرت ڈراما بھی اپنی تمام تر لطافتوں اور نزاکتوں ، فنّی رچاؤ، اعلیٰ ادبی معیار ، اخلاقی اقدار اور اپنی مخصوص روایات کو اپنے دامن میں سمیٹے درجۂ کمال کو پہنچ چکا تھا لیکن آریائی تہذیب و معاشرت کے زوال کے ساتھ ساتھ سنسکرت ڈرامے پر بھی انحطاط کے بادل چھا گئے ۔ سنسکرت زبان اور اس کا ادب درباری سرپرستی سے محروم ہو گیا ۔ اِدھر سنسکرت عوامی زبان کبھی نہ تھی ۔ اس دوگونہ صورتِ حال کے نتیجے میں سنسکرت ڈرامے کا خاتمہ ہو گیا ۔ دوسری علاقائی اور مقامی پراکرتوں میں ڈرامے کے آرٹ کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت نہ تھی۔لہٰذا عوام نے اپنی دلچسپی اور تفریحی شوق کی تسکین کے لیے رام لیلا، کرشن لیلا اور اسی طرح کے دوسرے مذہبی، عشقیہ اور معاشرتی کھیلوں کا سہارا لیا ۔ ان تماشوں اور کھیلوں کے لیے نہ کوئی مخصوص عمارت ہوتی تھی اور نہ کوئی باقاعدہ اسٹیج ہوتا تھا بلکہ یہ میدانوں یا سڑکوں پر کھیلے جاتے تھے۔ ان کی مروّجہ صورتیں سوانگ ، بہروپ اور نوٹنکی وغیرہ تھیں۔ ان میں نہ تو فنی اصولوں کو ملحوظ رکھا جاتا تھا اور نہ دیکھنے والوں کے نزدیک تفریحِ طبع کے علاوہ کوئی اہمیت تھی ۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں مسلمانوں کے دورِ حکومت میں ڈرامے کی صنف پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جب کہ دوسرے علوم و فنون کی ترویج وترقی میں مسلمان حکمرانوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اس کا بڑا سبب غالباً یہ تھا کہ نہ تو عربی وفارسی ڈرامے کی کوئی روایت ان کے سامنے تھی اور نہ سنسکرت ڈرامے کی روایت ہی باقی تھی ، لہٰذا ڈراما ان کی سرپرستی سے محروم رہا۔

ڈرامے کے اس پس منظر پر غور کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اردو ڈراما کسی روایت کے تسلسل کے طور پر نہیں بلکہ اپنے مخصوص حالات اور اسباب و عوامل کے تحت وجود میں آیا ۔ اردو ڈرامے کا آغاز انیسویں صدی کے وسط سے ہوتا ہے ۔ اس لحاظ سے اس کی عمر بہت مختصر ہے ۔ اردو کے تقریباً تمام محققین ، مسعود حسن رضوی ادیب کے اس خیال سے متفق ہیں کہ نواب واجد علی شاہ اردو کے پہلے ڈراما نگار ہیں اور ان کا رہس ’’رادھا کنھیّا کا قصہ’‘ اردو ڈرامے کا نقشِ اول ۔  (۱)  یہ  رہس واجد علی شاہ کی ولی عہدی کے زمانے میں ’قیصر باغ‘ میں ۱۸۴۳ء میں بڑی شان سے کھیلا گیا۔ واجد علی شاہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ فنِ موسیقی،  رقص وسرود اور آرٹ کے بڑے دلدادہ اور مدّاح تھے۔’’رادھا کنھیّاکا قصہ ‘‘کے علاوہ واجد علی شاہ کے دوسرے رہس بھی بڑی آن بان سے شاہی اسٹیج پر دکھائے گئے ۔

ایک طرف واجد علی شاہ کے رہس تھے جو ’’قیصر باغ’‘ کی چہار دیواری تک محدود تھے تو دوسری طرف تقریباً کچھ ہی عرصے بعد یعنی ۱۸۵۳ء میں سید آغا حسن امانتؔ کا ’’اندر سبھا’‘ عوامی اسٹیج پر پیش کیا جا رہا تھا۔گو تاریخی لحاظ سے واجد علی شاہ کے رہس کو امانت کے اندر سبھا پر تقدم حاصل ہے لیکن بے پناہ شہرت ، ہر دلعزیزی اور قبولِ عام کی سند ’’اندرسبھا’‘ کے حصے میں۔ آئی مسعود حسن رضوی ادیبؔ لکھتے ہیں ’’اندر سبھا اردو کا پہلا ڈراما نہیں ہے لیکن اس سے اُ س کی تاریخی اہمیت میں کوئی کمی نہیں ہوتی ، وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو عوامی اسٹیج کے لیے لکھا اور کھیلا گیا ۔ وہ پہلا ڈراما ہے جس کو عام مقبولیت نے ملک میں شہر شہر اور اودھ میں گاؤں گاؤں پہونچا دیا۔ وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو چھپ کر منظرِ عام پر آیا اور سینکڑوں مرتبہ شائع ہوا۔ وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو ناگر ی، گجراتی اور مراٹھی خطوں میں چھاپا گیا’‘

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                                 ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول