صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
علامہ حسنؔ رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری
ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
اقتباس
نعت اردو کی دیگر اصنافِ سخن کے مقابلے میں سب سے زیادہ طاقت ور، معظّم، محترم اور محبوب و پاکیزہ صنف ہے۔ اس کا آغاز یومِ میثاق ہی سے ہو چکا تھا۔ قادرِ مطلق جل شانہٗ نے قرآنِ عظیم میں جا بجا اپنے محبوبِ مکرّم صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصاف و کمالات کو بیان فرما کر نعت گوئی کا سلیقہ و شعور بخشا ہے۔ صحابۂ کرام، ازواجِ مطہرات، اہلِ بیتِ اطہار، تابعین، تبع تابعین، ائمۂ مجتہدین، سلف صالحین، اغواث، اقطاب، ابدال، اولیا، صوفیہ، علما اور بلا تفریق مذہب و ملّت شعرا و ادبا کا ا یک لامتناہی سلسلہ ہے جنہوں نے اس پاکیزہ صنف کا استعمال کرتے ہوئے بارگاہِ محبوبِ کردگار صلی اللہ علیہ و سلم میں اپنی عقیدت و محبت کے گل و لالہ بکھیرے ہیں۔
ہندوستان میں نعتیہ شاعری کے باضابطہ طور پر آغاز کے آثار سلطان شمس الدین التمش کے زمانے میں ملتے ہیں۔ طوطیِ ہند حضرت امیر خسروؔ کو ہندوستان میں نعتیہ شاعری کے میدان کا مستند شاعر کہا جاتا ہے۔ امیر خسروؔ فارسی زبان و ادب کے ماہر تھے۔ آپ کا کلامِ بلاغت نظام بھی فارسی ہی میں موجود ہے۔ بعد ازاں جب اردو زبان کا وجود ہوا تب ہی سے اردو میں نعتیہ شاعری کا بھی آغاز ہوا۔ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، فخرِ دین نظامی، غلام امامؔ شہید، لطف علی لطفؔ بدایونی، کفایت علی کافیؔ، کرامت علی شہیدیؔ، احمد نوریؔ مارہروی، امیر مینائی، بیدمؔ شاہ وارثی، نیازؔ بریلوی، آسیؔ غازی پوری، محسن کاکوروی اور امام احمد رضا بریلوی سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ استاذِ زمن علامہ حسن رضا خاں حسنؔ بریلوی تک پہنچا اور اردو نعت گوئی کا یہ نا ختم ہونے والامقدس سفر ہنوز جاری و ساری ہے۔
امام احمد رضا بریلوی بلا شبہہ بیسویں صدی کے سب سے عظیم نعت گو شاعر گزرے ہیں آپ حسّان الہند ہیں۔ نعتیہ شاعری کے سرتاج اور اس فن کی عزت و آبرو کے ساتھ ساتھ سخنورانِ عجم کے امام بھی …اسی طرح آپ کے برادرِ اصغر علامہ حسن رضا بریلوی کے دیوان کے مطالعہ کے بعد انھیں بھی بلا تردد اردو کا ممتاز نعت گو شاعر قرار دیا جا سکتا ہے۔ آپ کے نعتیہ دیوان ’’ذوقِ نعت‘‘ میں جہاں کلا سیکیت کے عناصر اور تغزّل کے رنگ کی بھر پور آمیزش ہے وہیں پیکر تراشی، استعاری سازی، تشبیہات، اقتباسات، فصاحت و بلاغت، حُسنِ تعلیل و حُسنِ تشبیب، حُسنِ طلب و حُسنِ تضاد، لف و نشر مرتب و لف و نشر غیر مرتب، تجانیس، تلمیحات، تلمیعات، اشتقاق، مراعاۃ النظیر وغیرہ صنعتوں کی جلوہ گری بھی…اس دیوان میں نعت کے ضروری لوازم کے استعمال سے مدحِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کی انتہائی کامیاب ترین کوششیں ہیں۔ علامہ حسن رضا بریلوی کی بعض نعتوں کو اردو ادب کا اعلیٰ شاہ کار قرار دیا جا سکتا ہے۔ آپ کا پورا کلام خود آگہی، کائنات آگہی اور خدا آگہی کے آفاقی تصور سے ہم کنار ہے۔ مگر کیا کہا جائے اردو ادب کے اُن مؤرخین و ناقدین اور شعرا کے تذکرہ نگاروں کو جنھوں نے گروہی عصبیت اور جانبداریت کے تنگ حصار میں مقید و محبوس ہو کر اردو کے اس عظیم شاعر کے ذکرِ خیر سے اپنی کتابوں کو یکسر خالی رکھا نیز یہ شاعر جس قادر الکلام شاعر کی بارگاہ میں اپنے نعتیہ کلام کو زیورِ اصلاح سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے لیے پیش کرتا تھا اُس (یعنی امام احمد رضا بریلوی) کا بھی ذکرِ خیر اپنی کتابوں میں نہ کر کے اردو ادب کے ساتھ بڑی بد دیانتی اور سنگین ادبی جُرم کا ارتکاب کیا ہے۔ وہ تو بھلا ہو لالہ سری رام کا جنھوں نے ’’خمخانۂ جاوید‘‘ جلد دوم کے صفحہ ۴۵۰ پر علامہ حسن رضا بریلوی کا تذکرہ کر کے اپنے آپ کو متعصب مؤرخینِ اردو ادب سے جدا کر لیا ہے۔ موصوف لکھتے ہیں۔
’’سخنورِ خوش بیاں، ناظمِ شیریں زباں مولانا حاجی محمد حسن رضا خاں صاحب حسن ؔ بریلوی خلف مولانا مولوی نقی علی خاں صاحب مرحوم و برادر مولانا مولوی احمد رضا خاں صاحب عالمِ اہلِ سنت و شاگردِ رشید حضرت نواب فصیح الملک بہادر داغؔ دہلوی……نعت گوئی میں اپنے برادرِ بزرگ مولوی احمد رضا خاں سے مستفیض ہیں اور عاشقانہ رنگ میں بلبلِ ہندوستان داغؔ سے تلمذ تھا‘‘۔
یہاں یہ امر باعثِ حیرت و استعجاب ہے کہ ’’خمخانۂ جاوید‘‘ جیسے ضخیم تذکرے میں امام احمد رضا بریلوی کا ذکر محض اس مقام کے علاوہ کہیں اور نہیں ہے جبکہ آپ کا ذکر بحیثیتِ شاعر الگ سے ہونا چاہیے تھا، یہاں پر آپ کا تذکرہ صر ف علامہ حسن رضا بریلوی کے بڑے بھائی کی حیثیت سے ہے اس موقع پر ماہرِ غالبیات کالیداس گپتا رضاؔ کی اس تحریر کو نقل کرنا غیر مناسب نہ ہو گا، گپتا صاحب رقم طراز ہیں۔
’’تاہم حیرت ہے کہ اس ضخیم تذکرے میں اِن (حسنؔ رضا بریلوی) کے بڑے بھائی ’’عالمِ اہلِ سنت اور نعت گوئی میں اُن کے استاذ جناب احمد رضا خاں کے ذکر نے جگہ نہ پائی۔ ‘‘(ماہنامہ قاری، دہلی، امام احمد رضا نمبر، اپریل ۱۹۸۹ ء، مضمون: امام احمد رضا بحیثیتِ شاعر، از: کالیداس گپتا رضا، ص ۴۵۶)۔
استاذِ زمن علامہ حسن رضا بریلوی کا کلامِ بلاغت نظام معنی آفرینی کے لحاظ سے جس قدر بلند و بالا ہے اس پر اس قدر کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوا ہے۔ غالباً آپ کی شاعری پر پہلا مقالہ رئیس المتغزلین سید فضل الحسن قادری رضوی رزّاقی مولانا حسرتؔ موہانی علیہ الرحمۃ (م)کا تحریر کردہ ہے جو کہ ’’اردوئے معلی ‘‘علی گڑھ کے شمارہ جون ۱۹۱۲ء میں اشاعت پذیر ہوا تھا۔ (سیرتِ اعلیٰ حضرت، از : فرزندِ استاذ زمن علامہ حسنین رضا خاں بریلوی، مطبوعہ، مکتبۂ مشرق، بریلی، ص ۱۳ سے ۱۷ تک مولانا حسرتؔ موہانی کا یہ مضمون درج ہے )۔
اس مسلمہ حقیقت سے قطعاً انکار ممکن نہیں کہ محبت و اُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم خانوادۂ رضا کا طرۂ امتیاز ہے۔ حدائقِ بخشش(از:امام احمد رضا بریلوی)اور ’’ذوقِ نعت‘‘ کے مطالعہ سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دونوں بھائیوں کو محبت و اُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم گھٹی میں گھول کر پلائی گئی ہے۔ ’’حدائقِ بخشش‘‘ محبت و اُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک ایسا میخانہ ہے جہاں کی پاکیزہ شراب سے آج ساری دنیا کے خوش عقیدہ مسلمان سیراب ہو رہے ہیں۔ اسی طرح ’’ذوقِ نعت‘‘ بھی محبت و اُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک حسیٖن مجموعہ ہے جس کا ورق ورق محبتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے تابندہ و فروزاں اور سطر سطر میں تعظیم و ادبِ رسالت کی جلوہ گری ہے ؎
٭٭٭