صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


ہرجائی کرن

علی حسن شیرازی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

غزلیں

یہ کب کہا ہے کہ مرنے کی بات یار نہ کر

مگر یہ تذکرہ  ہجر بار بار نہ کر


وہ اک کرم سے سبھی کچھ تجھے بھلا دے گا

تو اس لئے ستم اس کے ابھی شمار نہ کر


نظر کو روک کسی آرزو کے ساحل پر

اب اس کے حسن کے دریا کو ایسے پار نہ کر


کوئی امید نہ رکھ اب کسی کے آنے کی

جو وقت بیت گیا اس کا انتظار نہ کر


سکوں بہت ہے یہاں دوریوں کے صحرا میں

قریب آ کے ہمیں پھر سے بے قرار نہ کر


سمجھ لے اس کو بھی حکمت کوئی خدا کی حسن

وہ جا چکا ہے تو یوں خود کو سوگوار نہ کر

٭٭٭


طلوعِ صبح کا منظر کبھی تو آئے گا

وہ شخص روشنی لے کر کبھی تو آئے گا


ہم اس امید پہ محوِ سفر ہیں مدت سے

کہ راستے میں ترا گھر کبھی تو آئے گا


خمارِ بندگی اوڑھے ہوئے کوئی جذبہ

تمہاری روح کو چھو کر کبھی تو آئے گا


کبھی تو سیکھے گا وہ خود سپردگی کا ہنر

وہ اپنی ذات سے باہر کبھی تو آئے گا


ابھی تو اس سے ہزاروں سوال کرنے ہیں

جو جا چکا ہے پلٹ کر کبھی تو آئے گا


میں موج موج اسے روح میں اتاروں گا

وہ خوشبوؤں کا سمندر کبھی تو آئے گا


ہمارا نام بھی شامل ترے جواب میں ہے

سوالِ قصہ  محشر کبھی تو آئے گا


حسن بکھرنے کو بے تاب ہے یہ شیشہ  دل

کسی کی یاد کا پتھر کبھی تو آئے گا

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول