صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


ہم عصر اردو شاعری کی دو اہم شخصیات

پروفیسر انور مسعود، سید علی مطہر اشعرؔ

ترتیب: محمد یعقوب آسیؔ

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

                                 احساس کا پُتلا

آفتاب رانا: یہ جو شاعری ہوتی ہے، اس کا موضوع بڑا وسیع ہوتا ہے اور وہ جو اقبال نے یا غالب نے شاعری کی ہے، اور اقبالؔ نے کہا ہے کہ

 ع          سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

اب یہ دیرینہ مسئلہ ہے کہ کائنات حرکت میں ہے یا غیر حرکت میں۔ اس مسئلے کو موضوع بنایا ہے انہوں نے شاعری میں۔ تو کیا مزاحیہ شاعر جو ہے، وہ اس طرح کے بڑے بڑے مسئلوں کو ڈِس کَسdiscuss کر سکتا ہے؟

پروفیسر انور مسعود:  بڑا اچھا سوال ہے آپ کا، یہی سب کہا کرتے ہیں۔ انٹرویو دینے والا یہی کہا کرتا ہے، بڑا اچھا سوال ہے آپ کا ۔۔۔ پہلے ہم لفظ مزاح پر بات کرتے ہیں۔ ۔۔اس میں ایک نقطہ ڈال دیجئے ۔

محمد یعقوب آسیؔ: مزاج

پروفیسر انور مسعود:ہاں، مزاج ۔ بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے سوال کے اندر ہی جواب چھپا ہوتا ہے، وہ ہمیں معلوم نہیں ہوتا۔ اب جیسے آپ نے مزاج کہہ دیا تو یہ بات مزاج کی بن گئی۔ ہر وہ شخص مزاح نگار ہے جس کے اندر مزاح موجود ہے، مزاج ہے جس کا! دیکھیں دنیا میں کہاں شاعری نہیں ہے! ساری دنیا میں شاعری پھیلی ہوئی ہے، یہاں تک کہ  ۔۔۔  دیکھئے  ۔۔۔  نالی میں پانی جا رہا ہے۔ اب یہ کوئی موضوع تو نہیں ہے۔ نالی میں گندا پانی جا رہا ہے اور ایک آدمی اس میں جھاڑو دے رہا ہے، یہ کوئی ٹارگٹ target نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ کی نظر شاعرانہ ہے، آپ کے پیچھے مجید امجد ہے تو، وہ کہتا ہے  ۔۔۔ کہ:


    گلی  کے موڑ پر نالی میں پانی

    تڑپتا تلملاتا جا رہا ہے

    زدِ جاروب کھاتا جا رہا ہے

    وہی مجبوریِ افتادِ مقصد

    جو اُس کی کاہشِ رفتار میں ہے

    مرے ہر گامِ نا ہموار میں ہے


تو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ نظر اگر شاعرانہ ہے تو ہر جگہ شاعری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ کا مزاج  مزاحیہ ہے تو ہر جگہ مزاح موجود ہے۔ دنیا کے بڑے مسائل میں بھی مزاح موجود ہے۔  آپ زندگی میں کوئی ناہمواری دیکھتے ہیں، کوئی ایسی چیز جو اپنی صحت سے ہٹی ہوئی ہے، صراطِ مسقیم سے بھٹک گئی ہے، تو وہاں، وہ ایک مزاحیہ سیچوایشن situation ہے۔ مثلاً یہ دیکھئے، ہمارے ہاں سنجیدہ ترین صنف جو ہے ادب کی، وہ ہے غزل۔ اس میں مزاح موجود ہے۔ غزل میں مزاح موجود ہے! اقبال جیسا سنجیدہ شاعر جو ہے، بانگِ درا میں  ۔۔  اس کا  ۔۔ مزاحیہ حصہ موجود ہے۔ عالیؔ صاحب رات دوہے پڑھ رہے تھے، وہ کیا کہہ گئی کہ ، بھیّا کہہ گئی نار  ۔۔۔

چھَیلابن کے نکلے تھے اور بھیّا کہہ گئی نار

اس میں مزاح موجود ہے  ۔۔۔  مزاح ہر جگہ موجود ہے  ۔۔ اس کے ساتھ ساتھ دیکھئے، اکبر الٰہ آبادی نے کوئی غیر سنجیدہ مضامین چھیڑے ہیں؟ تہذیب اور یورپ Europe  ، یورپ کی تہذیب سے اسے ایک نفرت ہے۔ اسے اپنی قدریں عزیز ہیں، یہ کتنا بڑا المیہ ہے، کتنا بڑا مسئلہ ہے اور اُس نے اِس کو چھیڑا ہے۔ تو، میں سمجھتا ہوں کہ مزاج ہونا چاہئے اور پھر آدمی ہر بات اس رنگ میں کہہ سکتا ہے

ع          ڈاروِن بولا بُوزنہ ہوں میں

ہیں جی! تو یہ جو ہے ارتقاء کا مسئلہ، مزاح میں آیا ہے۔ کتنا دیرینہ اور اہم مسئلہ ہے ڈاروِن Darwin کا!  دیرینہ مسئلہ اس لئے کہ اسے رومی نے بھی چھیڑا ہے۔ رومی نے تو اس سے بہت پہلے کہہ دیا ہے بلکہ بہت سے ایسے مسئلے ہیں جو آئن سٹائن  Ein Stein  نے بیان کئے ہیں یا نیوٹن Newton نے بیان کئے ہیں رومی کے ہاں وہ ہمیں ملتے ہیں۔ بات اصل میں مزاج کی ہے۔ مثلاً اقبال  ۔۔۔ کتنی بڑی بات ہے، انسان پر طنز کر رہا ہے۔ کہتا ہے کہ شیطان خدا کے پاس گیا اور اس نے شکایت کی:

اے خداوندِ صواب و ناصواب

من شدم از صحبتِ آدم خراب

اے اچھائی اور برائی کے خدا! میں تے چنگا بھلا ہوندا ساں ، مینوں تے ایس بندے دی صحبت نے خراب کیتا اے، شیطان کہہ رہا ہے! کتنی عظیم بات چھیڑی ہے!تو، یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ انسان مزاح میں معمولی بات بھی کر سکتاہے اور غیر معمولی بات بھی کر سکتا ہے۔

 ٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول