صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


حالی سے ما قبل کی غزل پر ایک نظر   

پروفیسر ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

باب ۸

     دبستانِ دہلی کے دورِ متاخرین میں اُردو غزل زبان و بیان کی نئی لطافتوں اور نزاکتوں سے روشناس ہوئی، اس دور میں اصلاحِ زبان کی تحریک نے اردو کو ایک نئے ذائقے سے سرشار کیا،ولی دکنی نے جس لسانی تحریک کی بنیاد ڈالی تھی وہ مختلف شکلوں سے گزرتی بالآخر دہلی پہنچ کر مکمل ہوئی، اس دور کے شعرا میں شاہ نصیر، ذوق اور ظفر نے غزل کی زبان کو تازگی اور صفائی کا کامل نمونہ بنا دیا ، مزرا غالب ، مومن اور شیفتہ نے معنی آفرینی، بلند خیالی اور تغزل کی سرشاری سے ہم کنار کیا ، اس عہد کی غزل نے فکر اور فن کی معراج پالی۔

    شاہ نصیر( م ۱۸۳۸ء) کا شمار دہلی کے سربرآوردہ شعرا میں ہوتا ہے۔ مشکل طرحوں اور سنگلاخ زمینوں میں شعر کہنے کے باعث انہیں دہلی کا ناسخ کہا جاتا ہے۔ شاہ نصیر زبان کے اسرار و رموز سے کاملاً آگاہ تھے ، مشکل زمینوں میں بڑی آسانی اور روانی سے شعر کہتے تھے (۷۵) اور اسے زبان و بیان کی لطافتوں کا مرقع بنا دیتے۔ مضمون آفرینی، خیال بندی ، تشبیہ و استعارہ سازی میں کمال کے باعث ان کی استادی کا لوہا مانا گیا۔ ذوق اور مومن کے علاوہ بیسیوں شاگردوں نے ان سے کسبِ فیض کیا۔ شاہ نصیر کی تشبیہات میں ندرت اور صناعت کا دل کش امتزاج دکھائی دیتا ہے:

جوں کاغذ ِ آتش زد ہ ہم بہرِ تماشا

ہنس ہنس کے جلے رات جلائے سے کسی کے

جوں نقش ِ قدم خاک نشینانِ رہ ِ عشق

تا حشر نہ اٹھیں گے اٹھائے سے کسی کے


    شاہ نصیر نے اگرچہ ’’ تماشا ہمہ تن چشم۔۔ مینا ہمہ تن چشم، تر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں۔۔ گھر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں، پیدا سر پہ طرہ ہار گلے میں۔۔ تنہا سر پہ طرہ ہار گلے میں، پیرہنِ سرخ ترا۔۔ دہنِ سرخ ترا، علم اٹھ نہیں سکتا۔۔ قدم اٹھ نہیں سکتا، قرینے ساون بھادوں کے ۔۔ مہینے ساون بھادوں کے، عسل کی مکھی۔۔ جبل کی مکھی، عبادت گاہ خدنگ و گاہ کماں۔۔ قامت گاہ خدنگ و گاہ کماں‘‘ جیسی زمینوں میں شعر کہے ہیں جن میں غزل کا شعر نکالنا بہ ظاہر ناممکن دکھائی دیتا ہے مگر شاہ نصیر نے اپنی خدا داد صلاحیتوں سے ان زمینوں کو بھی شعریت اور تغزل کے ذائقے سے مالا مال کیا ہے، سید عابد علی عابد رقم طراز ہیں:

        ’’ میرا یہ دعویٰ ہے کہ نصیر کے کلام کا انتخاب کیا جائے تو ذوق سے کہیں زیادہ ایسے اشعار ملیں گے جو موسیقی کے اعتبار سے درِ گوش پر بھی دستک دیتے ہیں اور اثر کے لحاظ سے چُپکے چُپکے حریمِ دل میں بھی در آتے ہیں۔‘‘ (۷۶)

    شیخ محمد ابراہیم ذوق ( ۱۷۸۹ء تا ۱۸۵۴ء) دہلی کے طبقۂ متاخرین کے قادرا لکلام استاد شاعر تھے، انہوں نے کم سنی میں مشقِ سخن آغاز کی اور شاہ نصیر کے حلقۂ تلمذ میں داخل ہوئے مگر براقیِ طبع کے باعث بہت جلد شاہ نصیر سے بگاڑ پیدا ہو گیا اور اپنے کلام کی خود ہی اصلاح کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ مشق و ممارست سے اس قابل ہو گئے کہ انہیں ’ملک الشعرا ‘اور ’خاقانیِ ہند ‘کے القابات سے نوازا گیا اور شاہ نصیر  کے دہلی چھوڑنے کے بعد بہادر شاہ ظفر  کے کلام کی اصلاح پر مامور ہوئے۔ سودا و ناسخ کے اتباع اور شاہ نصیر کی شاگردی کے باعث انہیں سنگلاخ زمینوں اور مشکل طرحوں میں شعر کہنے کا شوق ہوا جو عمر بھر باقی رہا، ان کا بیش تر سرمایہ ٴ شاعری ۱۸۵۷ء کے ہنگاموں میں تلف ہو گیا ، مولانا محمد آزاد  کی کوشش سے ان کا جو کلام بچ رہا اس میں غزلوں کی تعداد دو اڑھائی سو سے زیادہ نہیں تاہم اس مختصر دیوان سے بھی ان کی سنگلاخ زمینوں سے دل چسپی اور وابستگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

    ذوق کی غزل کے تکنیکی مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ زبان کے بہت بڑے جوہری تھے۔ انہوں نے صفائیِ زبان کی وہ قندیل روشن کی جو داغ دہلوی کے ہاں مہرِ درخشاں کی صورت دکھائی دیتی ہے۔ الفاظ کی نشست، ترکیب کی بندش، امثال و محاورات کے استعمال اور روزمرہ کے برتاؤ میں وہ اپنے زمانے کے تمام مقتدر شعرا پر فوقیت رکھتے ہیں،انہوں نے دہلی کی ٹکسالی زبان کا ایک واضح ادبی معیار قائم کیا ۔ سید عابد علی عابد ان کی لسانی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

        ’’ ذوق نے اُردو زبان کو اس طرح سنوارا، سنگھارا اور نکھارا ہے کہ اس کے ہاتھوں میں پہنچ کر وہ فارسی کی ایک شاخ، نو رس نہ رہی بل کہ ایک تناور درخت بن گئی۔۔۔ جو گھلاوٹ، روانی،سادگی اور صفائی ذوق کی غزلوں میں ہے وہ اس سے پہلے غزلوں میں کہیں نظر نہیں آتی۔ اس اعتبار سے ذوق منفرد ہے ۔ وہ صحیح معنی میں اُردو زبان کا پہلا غزل گو ہے اس کے ہاں فارسی اُردو کا ماخذ اور منبع نہیں بل کہ ایک زبان ہے جس سے گاہ گاہ اُردو فیض حاصل کرتی ہے اور بس!‘‘ (۷۷)

    ذوق کے ہاں صنائع و بدائع کا استعمال فن کارانہ ہے انہوں نے فنِ شعر کے ان آرائشی عناصر میں اپنی اختراعی صلاحیت کے باعث شعریت اور نغمگی کی تاثیر بھر دی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے بہت سے شعر ضرب المثل کی حیثیت سے زباں زدِ عوام و خواص ٹھہرے، ذوق کے چند ایسے مقبول زمانہ مصرعے دیکھیے:

            یہ نصیب اللہ اکبر ، لوٹنے کی جائے ہے

            چُھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

            تُجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو

            زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو

            حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بِن کھلے مرجھا گئے

            اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

            تُم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے

    ذوق  کے مطلعے اپنی یک آہنگی کے باعث لاجواب ہیں۔ ردیف و قافیہ کے اسرار و رموز سے کامل واقفیت اور زبان و بیان کی نزاکتوں سے گہری آشنائی کے بغیر اس شان کے مطلعے نہیں کہے جا سکتے۔ داغ  کے سوا اس میدان میں کوئی شاعر ذوق کے مقام و مرتبہ کو نہیں پہنچتا۔چند مطلعے دیکھیے:

ماتھے پہ ترے چمکے ہے جھومر کا پڑا چاند

لا بوسہ چڑھے چاند کا وعدہ تھا چڑھا چاند

 

وقتِ پیری شباب کی باتیں

ایسی ہیں جیسی خواب کی باتیں


مذکور تری بزم میں کس کا نہیں آتا

پر ذکر ہمارا نہیں آتا، نہیں آ تا

مرزا اسد اللہ خان غالب( ۱۷۹۷ء تا ۱۸۶۹ء)اُردو شاعری کے مجتہد اور مجدد ہیں ، انہوں نے اپنے فکری نظام اور فنی مہارت سے اُردو شاعری بالخصوص اُردو غزل کو وہ وقار اور اعتبار بخشا جس نے ’’ریختہ ‘‘کو ’’رشکِ فارسی ‘‘ بنا دیا:

 جو یہ کہے کہ ’ ریختہ‘ کیوں کر ہے رشکِ فارسی؟‘

گفتۂ غالب  ایک بار پڑھ کے اُسے سُنا کہ ’یوں‘

    مرزا غالب کا منتخب دیوان صرف دو صد پینتیس غزلیات( بہ شمول فردیات) پر مشتمل ہے مگر فکر و فن کی ہُنر مندانہ آمیزش نے اس مختصر دیوان کو رفعت و عظمت کے اُس مقام پر پہنچا دیا جہاں ضخیم اور بھاری بھرکم دواوین کا گُزر نہیں۔ غالب نے حیات و کائنات کے مسائل کو اپنے مخصوص فلسفیانہ نقطۂ نظر سے دیکھا اور پھر انہیں تغزل کی چاشنی میں یوں گھُلا مِلا کر پیش کیا کہ فلسفہ شعر اور شعر فلسفہ کے ذائقے سے سرشار ہوا۔ غالب نے غزل کے تکنیکی عناصر کو ایک ایسی شان عطا کی جس نے غزل کے تکنیکی اُفق کو روشن اور اس کے فنی امکانات کو وسیع کر دیا۔

    مرزا غالب اپنی افتادِ طبع کے اعتبار سے انفرادیت پسند تھے ، روشِ عام پر چلنا اُن کے مزاج کے خلاف تھا۔ اُن کے عہد میں سنگلاخ زمینوں، مشکل ردیفوں ، انوکھے قافیوں، صنائع و بدائع کے کثیر استعمال اور دیگر لسانی نزاکتوں کو شعر کی آبرو اور جان سمجھا جاتا تھا ۔ غالب نے اس جادۂ شعر کو قبول نہیں کیا۔ ان کی فطری مشکل پسندی اور مضمون آفرینی کو فارسی کے بے بدل شاعر مرزا عبدالقادر بیدل کا ’’ رنگِ بہار ایجادی‘‘ ( ۷۸) پسند آگیا اور انہوں نے اس رنگ کے اتباع سے اپنے لیے نیا راستہ بنانے کی کوشش کی ۔ بلند پروازی کی خواہش اور بیدل  کے تتبع کے باعث اُن کا ابتدائی دور کا کلام اغراق کا شکار ہوا۔ انوکھی تشبیہات، مبہم استعارات، پیچیدہ تراکیب، غیر مانوس الفاظ اور فارسیت کے غلبے نے ان کے کلام کو بعید الفہم بنا ڈالا۔ منتخب دیوان میں اُس دور کا سارا کلام شامل نہیں تاہم کئی اشعار ایسے دکھائی دیتے ہیں جو اُس دور کے طرزِ سخن کے گواہ ہیں ،جیسی:

شمارِ سجہ ، مرغوبِ بت ِ مشکل پسند آیا

تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل پسند آیا


بہ فیضِ بیدلی ، نومیدیِ جاوید آساں ہے

کشائش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آیا


ہوائے سیرِ گُل آئینۂ بے مہریِ قاتل

کہ اندازِ بخوں غلطیدنِ بسمل پسند آیا

    مذاقِ عام نے کلام کی اس پیچیدگی اور ابہام کو پسند نہیں کیا، غالب کا کلام ہدفِ تنقید بنا اور ان کی مہمل گوئی کا تذکرہ جا بہ جا ہونے لگا۔ میر تقی میر اور مرزا رفیع سودا کے طرزِ کلام سے ہٹ کر کسی نئی طرز کو قبول کرنا شعرائے دہلی کے مزاج کے خلاف تھا، مشاعروں میں چوٹیں ہونے لگیں۔حکیم مرزا جان عیش نے غزل میں قطعہ کہا جو دہلی کی ادبی محفلوں میں گونجنے لگا:

اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے

مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے

کلامِ میر  سمجھے ا ور زبانِ میرزا  سمجھے

مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے

 

مرزا غالب نے ’’ گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی‘‘ کہہ کر معترضین کو خاموش کرنے کی کوشش کی مگر رفتہ رفتہ وہ کود اس رنگِ سخن سے دور ہوتے چلے گئے۔ اس رنگِ سخن کی تبدیلی میں مولانا فضلِ حق خیر آبادی اور مفتی صدر الدین آزردہ کی صحبتوں کا بھی دخل ہے۔مشق و ممارست اور ذوقِ سلیم نے غالب پر یہ ظاہر کر دیا تھا کہ:

طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا

اسداللہ خاں قیامت ہے

    طرزِ بیدل میں غالب  کی ناکامی کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر عبدالغنی رقم طراز ہیں:

        ’’غالب، بیدل کا تتبع کیوں کامیابی سے نہ کر سکے۔ یہ سوال بھی بڑا دل چسپ ہے۔ میرے     خیال کے مطابق غالب نے بیدل کے رنگ میں غزل کہنا اُس وقت شروع کیا جب کہ وہ ابھی نو مشق تھے، فکر پختہ نہ تھی اور ان کی روح اُن تجارب سے نا آشنا تھی جو تصوف کی عملی زندگی بسر کرنے کی وجہ سے بیدل کو حاصل ہوئے تھے۔ علاوہ بریں علمی لحاظ سے بھی جو وسعت ِ نظر اور عمیق نگاہ بیدل کو میسر تھی، وہ غالب کے حصے میں نہ آئی اور پھر زمانے کے حالات بھی مختلف تھے جن سے بیدل ایک طرف تو فکری اور عملی لحاظ سے عظمت اور سربلندی کے علم بردار بنے اور دوسری طرف جہاں دار شاہ اور مغل امرا کی پستیِ فطرت کو دیکھ کر انہیں ایک حیات افروز انقلاب کا داعی بننا پڑا۔ غالب کے سامنے ایک از کار رفتہ،بے کار اور معطل معاشرہ تھا جس کی مایوس کن تباہ حالی کے زیرِ نظر غالب کو گوشۂ عافیت کی تلاش کے بغیر اور کُچھ سوجھتا ہی نہ تھا۔‘‘ (۷۹)

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول