صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


منتخبات حالی

ٕمولانا حالی


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

غزلیں

بھید واعظ اپنا کھلوایا عبث

دل جلوں کو تو نے  گرمایا عبث

شیخ رندوں میں بھی ہیں کچھ پاکباز

سب کو ملزم تو نے ٹھہرایا عبث

آ نکلتے تھے کبھی مسجد میں ہم

تو نے زاہد ہم کو شرمایا عبث

کھیتیاں جل کر ہوئیں یاروں کی خاک

ابر ہے گھر کے ادھر آیا عبث

قوم کا حالیؔ پنپنا ہے محال

تم نے رو رو سب کو رلوایا عبث

٭٭٭

مال مہنگا نظر آتا تو چکایا جاتا

نامہ بر آج بھی خط لے کے نہ آیا یارو

تم تو کہتے ہو کہ وہ ہے ابھی آیا جاتا

لوگ کیوں شیخ کو کہتے ہیں کہ عیار ہے وہ

اس کی صورت سے تو ایسا نہیں پایا جاتا

کرتے کیا پیتے اگر مے نہ عشا سے نا صبح

وقت فرصت کا یہ کس طرح گنوایا جاتا

اس نے اچھا ہی کیا حال نہ پوچھا دل کا

بھڑک اٹھتا تو یہ شعلہ نہ دبایا جاتا

عشق سنتے تھے جسے ہم وہ یہی ہے شاید

خود بخود دل میں ہے اک شخص سمایا جاتا

اب تو تکفیر سے واعظ نہیں ہٹتا حالیؔ

کہتے پہلے سے تو دے لے کے ہٹایا جاتا

٭٭٭


دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا

سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا

تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط

الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا

مئے تند و ظرف حوصلۂ اہلِ بزم تنگ

ساقی سے جام بھر کے پلایا نہ جائے گا

راضی ہیں ہم کہ دوست سے ہو دشمنی مگر

دشمن کو، ہم سے دوست بنایا نہ جائے گا

بگڑیں نہ بات بات پہ کیوں جانتے ہیں وہ

ہم وہ نہیں کہ ہم کو منایا نہ جائے گا

مقصود اپنا کچھ نہ کھلا لیکن ا س قدر

یعنی وہ ڈھونڈھتے ہیں کہ پایا نہ جائے گا

جھگڑوں میں اہلِ دیں کے نہ حالیؔ پڑیں بس آپ

قصہ حضور سے یہ چکایا نہ جائے گا

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول