صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ہلاکو نامہ
غلام شبیر رانا
ؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
میرے پڑوس میں ایک سٹھیایاہوا بوڑھا گھاسو خان رہتا ہے جسے ناسٹلجیا کا عارضہ لاحق ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ سو پشت سے ان کے آبا کا پیشہ گدا گری تھا لیکن اس کی لاف زنی کا یہ حال ہے کہ اپنے احساس کم تری کے زخم چاٹ چاٹ کر اپنے دکھوں اور محرومیوں کے چاک کو رفو کرنے کی خاطر اپنا شجرہ نسب کھینچ تان کر تاریخ کی ان شخصیات سے ملاتا ہے جن کا نام سب نے سن رکھا ہو۔ اسے اپنی ذلت، رسوائی اور جگ ہنسائی کی کوئی پروا نہیں بس ایک ہی خبط اور خناس اس کے سر میں سما گیا ہے کہ لوگ اسے دیکھ کر چونکیں اور اس کے افراد خانہ کو محض جونکیں نہ سمجھیں۔ ماں کی گود سے نکل کر اب وہ گور کنارے پہنچ چکا ہے مگر اس کی کم ظرفی، کج بحثی، کور مغزی، ڈھٹائی اور جعلی تکبر کا یہ حال ہے کہ اب بھی وہ خان جاناں بن کر راجہ اندر کے مانند پریوں کے جھرمٹ کی تلاش میں باغوں اور سیر گاہوں میں للچائی نگاہوں سے حسن بے پروا کے جلووں کے لیے دیوانہ وار بگٹٹ دوڑتا پھرتا ہے۔ جب دیکھو وہ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گرانی اور بیتے دنوں کی شادمانی کی یادوں کی نوحہ خوانی میں مصروف رہتا ہے۔ اسے اس بات سے اختلاف ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے اس کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ممکن ہوتا تو اس کی بیتی ہوئی جوانی کے حسین خواب بھی پھر سے اس کی نگاہوں میں اپنی تمام رنگینیوں کے ساتھ جلوہ گر ہو جاتے اور اسے یوں سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہونے کی اذیت سے نجات مل جاتی۔ وہ اگرچہ فلسفے اور تاریخ کے بارے میں کورا اور یکسر خالی ہے مگر ان موضوعات پر وہ بے تکان ہنہناتا ہے اور تھوتھے چنے کے مانند بجتا ہی چلا جاتا ہے۔ لوگ اسے دیکھتے ہی لاحول پڑھتے ہیں ، ہر کوئی اسے دیکھ کر گھبراتا ہے لیکن یہ ہر جگہ پہنچ کر دم ہلاتا ہے، لوگ اسے دھتکارتے ہیں لیکن یہ ایسا چکنا گھڑا ہے کہ اس پر کچھ اثر ہی نہیں ہوتا۔ ایک عادی دروغ گو کی حیثیت سے گھاسو خان کو ابلیس نما درندہ سمجھا جاتا ہے لیکن وہ اپنی اس بد نامی اور شرم ناک پہچان پر بھی اتراتا ہے۔ سنگلاخ چٹان میں شگاف کرنے اور پتھر کو چونک لگانے میں اسے ید طولیٰ حاصل تھا۔ زمین کا بوجھ بن جانے والے اس متفنی کی زندگی عبرت کا نشان تھی۔
چند روز قبل میں باغ جناح کی سیر سے واپس آ رہا تھا کہ گھاسو خان کو پھولوں کی ایک کیاری میں ایک باڑ کے پیچھے چھپا دیکھا۔ میں سمجھ گیا یہ موذی ضرور کسی واردات کے لیے یہاں چھپا بیٹھا ہے۔ ابھی میں اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ سامنے سے حسین و جمیل دوشیزاؤں کی ایک ٹولی نمو دار ہوئی اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ لپک کر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا اور بوسیدہ کاغذوں کا ایک پلندہ ان کو دکھاتے ہوئے زار و قطار رونے لگا۔ اس کے آنسو، آہیں اور سسکیاں اپنا اثر دکھا گئیں۔ حسین و جمیل لڑکیوں کے دل موم ہو گئے اور ان کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔ ایک لڑکی نے اپنے آنسو ٹشو پیپر سے صاف کرتے ہوئے کہا:
’’ کیا بات ہے بابا؟تم اس قدر دکھی اور غم گین کیوں ہو؟کون لوگ ہیں جو تم پر اس عالم پیری میں ستم ڈھاتے ہیں اور تمھیں خون کے آنسو رلاتے ہیں ؟‘‘
٭٭٭