صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


حج و عمرہ کی شایع و ذایع غلطیاں

عامر گزدر

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

                                     احرام

)احرام کے موقع پر نیت کا زبانی اظہار کرنا دین میں مشروع نہیں ہے۔ شریعت میں جس طرح دیگر عبادات ؛ مثلاً نماز، زکوٰۃ، روزہ و اعتکاف اور قربانی میں نیت کے زبانی اظہار کا کوئی حکم نہیں دیا گیا،اسی طرح حج و عمرہ کے آغاز میں احرام کے موقع پر بھی مخصوص الفاظ ادا کر کے نیت کرنا دین میں مشروع نہیں ہے۔عام طور پر حج و عمرہ کی کتابوں میں جو بتایا جاتا ہے کہ اس موقع پر آدمی'اللّٰهُمَّ اِنِّیْ أُرِيْدُ الْحَجَّ فَيَسِّرْهُ لِیْ وَتَقَبَّلْهُ مِنِّیْ'وغیرہ کے الفاظ سے نیت کرے، اِس طرح کی کوئی چیز قرآن وسنت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و عمل سے ثابت نہیں ہے۔ اور عبادات میں جس چیز کو آپ کی نسبت حاصل نہیں،اُسے دین کی حیثیت سے،بالبداہت واضح ہے کہ قطعاً پیش نہیں کیا جا سکتا۔

 

٢)بعض لوگ دانستہ طور پر میقات یااُس کے محاذ ات سے احرام باندھنے کا اہتمام نہیں کرتے۔ان کا یہ عمل بھی درست نہیں ہے۔حج و عمرہ کے مناسک میں میقات سے احرام باندھنے کو چونکہ شریعت کی حیثیت سے مقرر کیا گیا ہے،چنانچہ اِس سے غفلت کی کسی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حج یا عمرہ کی غرض سے سفر کرنے والے ہر شخص کو اِس کا اہتمام کرنا چاہیے۔

 

٣) عام طور پر حج یا عمرہ کے احرام کے موقع پر دو رکعت نماز کی ادائیگی کو ضروری اور مناسک کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔اِس طرح کی کوئی نماز اس موقع پر شریعت میں مقرر نہیں کی گئی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اِس طرح کی کوئی چیز منقول نہیں ہے۔آدمی بغیر کسی نماز کے بھی احرام باندھ سکتا ہے۔ اور وہ چاہے تواُس موقع پر اگرکسی نماز کا وقت ہو تو اُس سے فارغ ہو کر بھی تلبیہ پکارسکتا ہے۔ تاہم ان میں سے کسی عمل کو دین و شریعت کی حیثیت سے پیش نہیں کیا جا سکتا۔

 

٤) حالت احرام میں مردوں کے لیے اس طرح کے کوئی جوتے پہننا بھی لازم نہیں ہے کہ جن میں اُن کے پاؤں کی اوپر والی اُبھری ہوئی ہڈی کھلی رہے،جیساکہ بعض اہل علم کی رائے ہے۔اِس طرح کی کوئی چیز بھی حج و عمرہ کی شریعت میں موجود نہیں ہے۔اس باب میں جو چیز شریعت کی حیثیت سے مقرر کی گئی ہے، وہ صرف یہ ہے کہ آدمی پاؤں میں جوتے یا موزے، جو کچھ بھی پہنے، وہ بہر حال ٹخنوں سے نیچے تک ہونے چاہییں۔

 

٥) یہ تصور بھی درست نہیں ہے کہ احرام کے کپڑے دھوئے جا سکتے ہیں،نہ کسی صورت میں تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ضرورت محسوس ہو تو مرد اور خواتین دونوں، لباسِ احرام کو دھو بھی سکتے ہیں اور اُسے تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔ حج و عمرہ کرنے والوں کے لیے دین نے اِس طرح کی کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے۔

 

٦) حالت احرام میں خواتین کا چہرے کو کپڑا مَس کیے بغیر نقاب پہننا بھی قطعاً درست نہیں ہے۔ اِس حالت میں خواتین کے لیے،جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے، شریعت کا حکم یہ نہیں ہے کہ وہ نقاب کا کپڑا اپنے چہرے پر نہ لگنے دیں۔بلکہ حکم یہ ہے کہ وہ چہرے پر نقاب نہ پہنیں ؛اُسے کھلا رکھیں۔چنانچہ اِس سے واضح ہے کہ یہ غلطی حکم کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی بنا پر عام ہوئی ہے۔ اِس عمل کے لیے بھی دین میں کوئی ماخذ موجود نہیں ہے۔البتہ مردوں سے اختلاط کے کسی ایسے موقع پر جس میں خواتین یہ ضرورت محسوس کریں کہ اُن سے اختلاط مناسب نہیں ہے تو وہ کسی پردے کی اوٹ میں رہ سکتی ہیں۔تاہم حالت احرام میں نقاب وغیرہ پہن کر چہرہ چھپائے رکھنے کا اہتمام کرنے کی اجازت اُنہیں قطعاً حاصل نہیں ہوسکتی۔

 

٧) ٨ ذو الحجہ کو مکہ مکرمہ میں حج کا احرام باندھنے کے بعد بیت اللہ میں حاضری اور دو رکعت نماز ادا کرنے کو باعث فضیلت سمجھنا بھی دین میں کسی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ حج کے احرام کے موقع پر اِس طرح کی کوئی چیز دین میں پسندیدہ عمل کی حیثیت سے ثابت نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد سے بھی اِس طرح کے کسی عمل کی کوئی فضیلت روایت نہیں ہوئی ہے۔پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عمل جو روایتوں میں نقل ہوا ہے، وہ بھی اِس کے بر خلاف ہے۔حجۃ الوداع کے موقع پر آپ شہر مکہ کے مشرقی جانب کے نشیبی علاقے میں مقیم تھے۔اپنی جائے قیام سے احرام باندھ کر آپ بیت الحرام میں حاضر نہیں ہوئے،بلکہ سیدھے منیٰ کی طرف روانہ ہوئے تھے۔

 

٨) بعض لوگ حج کے لیے مسجد حرام میں جا کر احرام باندھنے کو باعث فضیلت سمجھتے ہیں۔اِس تصور کے لیے بھی دین میں کوئی ماخذ موجود نہیں ہے۔

 

٩) یہ تصور بھی درست نہیں ہے کہ عمرہ میں استعمال شدہ احرام کے کپڑوں کو حج میں لباسِ احرام کے طور پراستعمال نہیں کیا جا سکتا۔اس طرح کا کوئی حکم حج و عمرہ کی شریعت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں موجود نہیں ہے۔

 

١٠) بعض حضرات کے ہاں ایک تصور یہ بھی پایا جاتا ہے کہ احرام باندھتے وقت آدمی کے لیے جوتے پہنے ہوئے ہونا ضروری ہے ؛بصورتِ دیگر اس کے بعد جوتے پہننے کی اجازت بھی ختم ہو جائے گی۔یہ تصور بھی بالکل باطل ہے۔اِس کی حیثیت بھی دین میں ایجاد بندہ کی ہے۔دینی اعتبارسے جوتے پہنے ہوئے احرام باندھنا کوئی ضروری چیز ہے، نہ یہ احرام کی کوئی شرط ہے۔احرام جوتے پہنے بغیر بھی باندھا جا سکتا ہے۔احرام باندھ لینے کے بعد جوتے پہننے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ان میں سے کسی عمل کو کوئی دینی حیثیت حاصل نہیں ہے۔

 ٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول