صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


حج سے متعلق اہم فتاوے

عبد العزیز بن عبد اللہ بن بازؒ


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

حج کے تین اقسام کون کون سے ہیں اور ہر ایک کی ادائیگی کا طریقہ کیا ہے ؟ نیز ان تین اقسام میں سب سے افضل حج کون سا ہے ؟ 


اہل علم رحمۃ اللہ علیہم نے حج کی تین قسمیں بیان کی ہیں ، اور ان میں سے ہرقسم رسول اللہ ؐ کی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔

پہلی قسم :یہ ہے کہ صرف عمرہ کا احرام باندھے، یعنی عمرہ کی نیت کرے اور (اللہم لبیک عمرۃ ) یا (لبیک عمرۃً)یا (اللہم إنی أوجبتُ عمرۃً) کہ کر تلبیہ پکارے، مشروع  یہ ہے کہ غسل کرنے، خوشبو لگانے اور ضرورت ہو تو مونچھ کاٹنے، ناخن تراشنے اور بغل کے اور زیر ناف کے بال صاف کرنے، نیز اگر احرام باندھنے والا مرد ہو تو سلے ہوئے کپڑے اتار کر احرام کے کپڑے چادر اور تہبند پہننے کے بعد نیت کی جائے اور مذکورہ کلمات کہے جائیں ، یہی افضل ہے۔

عورت کے لئے احرام کے تعلق سے کوئی خاص لباس نہیں ، بلکہ وہ جس لباس میں چاہے احرام باندھ سکتی ہے، ہاں افضل یہ ہے کہ وہ لباس جاذب نظر، حسین و جمیل اور دیکھنے والوں کے لئے باعث فتنہ نہ ہو، یہی اس کے لئے افضل ہے۔

احرام باندھتے وقت مرد یا عورت (اللہم لبیک عمرۃً) کہنے کے بعد اگر یہ کہ لے کہ "اگر مجھے کوئی عذر پیش آ گیا تو جس جگہ عذر پیش آئیگا میں وہیں حلال ہو جاؤں گا" یا یہ کہے کہ " اے اللہ ! میرا یہ عمل قبول فرما" یا یہ کہے کہ "اے اللہ! اس عبادت کی تکمیل میں میری مدد فرما" تواس طرح کے الفاظ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے

اگر محرم نے مشروط احرام باندھا، یعنی احرام باندھتے وقت اس نے یہ کہا کہ " اگر مجھے کوئی عذر پیش آ گیا تو جس جگہ عذر پیش آئیگا میں وہیں حلال ہو جاؤں گا" یا اسی قسم کے کوئی اور لفاظ اس نے کہے، اور اسے واقعتاً کوئی ایسا عذر پیش آ گیا جو اتمام حج سے مانع ہے، تو وہ حلال ہو جائے گا اور اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہو گی، کیونکہ ضباعہ بنت زبیر بن عبد المطلب نے رسول ؐ سے اپنے بیمار ہونے کی شکایت کی، تو آپ نے فرمایا

"حج کرو اور مشروط احرام باندھو کہ مجھے جہاں کوئی عذر پیش آ جائے گا میں وہیں حلال ہو جاؤں گی" (متفق علیہ)

لہذا اگر کوئی عورت عمرہ کے لئے مکہ آئے اور اسی طرح مشروط احرام باندھے، پھراسے حیض آ جائے اور ساتھ والے قافلہ کے انتظار نہ کرنے کی وجہ سے اپنے پاک ہونے تک اس کا مکہ میں قیام کرنا مشکل ہو، تو اس کے لئے یہ عذر تصور کیا جائے گا اور وہ حلال ہو جائے گی  اسی طرح اگر کسی مرد کو کوئی مرض لاحق ہو گیا جو اتمام عمرہ سے مانع ہے، یا اس کے علاوہ کوئی بھی عارضہ لاحق ہو گیا جس کے سبب وہ اپنا عمرہ مکمل نہیں کرسکتا، تو وہ حلال ہو جائے گا  یہی حکم حج کا بھی ہے جو حج کے مذکورہ بالا اقسام میں سے دوسری قسم ہے۔

دوسری قسم: یہ ہے کہ صرف حج کا احرام باندھے، یعنی حج کی نیت کرے اور (اللہم لبیک حجا) یا (لبیک حجا) یا (اللہم قد اوجبتُ حجّاً) کے الفاظ کے ساتھ تلبیہ پکارے، یہاں بھی عمرہ کی طرح مشروع کاموں ، مثلاً غسل کرنے، خوشبو لگانے اور سلے ہوئے کپڑے اتار کر احرام کے کپڑے پہننے وغیرہ، سے فارغ ہونے کے بعد یہ الفاظ اپنی زبان سے ادا کرے گا، جیساکہ عمرہ کے بیان میں اوپر مذکور ہو چکا ہے، یہی افضل ہے۔

مطلب یہ ہے کہ اس بارے میں حج کا حکم وہی ہے جو عمرہ کا ہے، کہ مسلمان مرد اور عورت احرام اس وقت باندھیں جب وہ اللہ کے مشروع کردہ کاموں سے فارغ ہو چکے ہوں ، مثلاً غسل کرنا، خوشبو لگانا اور اس قسم کی دیگر ضروریات جو احرام باندھنے سے پہلے مرد اور عورت کو پیش آسکتی ہیں۔

اگر ضرورت ہو تو جس طرح عمرہ کے لئے مشروط احرام باندھنا مشروع ہے اسی طرح حج کے لئے احرام باندھتے وقت بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ " اگر مجھے کوئی ایسا عذر پیش آ گیا جو اتمام حج سے مانع ہو تو جس جگہ عذر پیش آیا میں وہیں حلال ہو جاؤں گا"

احرام کا میقات سے باندھنا واجب ہے، احرام باندھے بغیر میقات سے آگے نہیں جاسکتا، لہذا اگر کوئی نجد سے یا طائف سے یا مشرق کی طرف سے آئے تو اسے طائف کی میقات "سیل " (وادی قرن) سے احرام باندھنا ہو گا، اگر کوئی شخص میقات سے پہلے احرام باندھ لے تو یہ کفایت کر جائے گا لیکن میقات سے پہلے احرام نہ باندھنا افضل ہے، یعنی سنت یہی ہے کہ احرام پہلے نہ باندھے، بلکہ میقات پہنچنے تک موخر رکھے، کیونکہ رسول ؐ نے میقات ہی سے احرام باندھا تھا۔

کوئی شخص اگر اپنے گھر ہی سے غسل کر کے، خوشبو لگا  کر اور دیگر مشروع کام مثلاً مونچھ کاٹنے وغیرہ سے فارغ ہو کر نکلے، یا موقع پاکرراستہ میں ان کاموں سے فارغ ہو جائے، تو یہ کفایت کر جائے گا بشرطیکہ احرام باندھنے کا وقت قریب ہو۔

جمہور اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ احرام باندھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے، ان کی دلیل رسول اللہ ؐ کی یہ حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا

"میرے پاس میرے رب کا فرستادہ (فرشتہ) آیا اور کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھو اور کہو : حج کے ساتھ عمرہ بھی۔ یعنی حج اور عمرہ کا ایک ساتھ تلبیہ پکارو(صحیح بخاری )

 یہ واقعہ وادی ذو الحلیفہ میں پیش آیا تھا۔

نیز رسول اللہ ؐ نے ظہر کی  نماز ادا کرنے کے بعد احرام باندھا تھا، اور یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ نماز کے بعد احرام باندھنا افضل ہے۔

مذکورہ قول درست ہے، لیکن واضح رہے کہ احرام کی دو رکعت نماز کی مشروعیت  پر کوئی واضح دلیل یا صحیح حدیث موجود نہیں ، اس لئے اگر کوئی شخص دو رکعت نماز پڑھ کر احرام باندھے تو اسمیں کوئی حرج نہیں ، اور اگر وضو کر کے دو رکعت تحیۃ الوضو پڑھ کر احرام باندھ لے تو بھی کافی ہے۔

تیسری قسم :یہ ہے کہ حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھے، یعنی حج اور عمرہ کی ایک ساتھ نیت کرے اور (اللہم لبیک عمرۃً وحجا) یا (حجا وعمرۃً) کہہ کر تلبیہ پکارے، یا میقات پر صرف عمرہ کا تلبیہ پکارے، پھرراستہ میں عمرہ کے ساتھ حج بھی شامل کر لے اور طواف شروع کرنے سے پہلے پہلے حج کا تلبیہ بھی پکار لے۔ اور حج کی یہ تیسری قسم "حج قران " کہلاتی ہے، جسکا مطلب حج اور عمرہ کا ایک ساتھ ادا کرنا ہے، نبی کریم ؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر"حج قران" ہی کا احرام باندھا تھا، اور عمرہ اور حج کا ایک ساتھ تلبیہ پکارا تھا، اور ہدی کے جانور اپنے ساتھ لائے تھے، جیساکہ انس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم وغیرہم کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے  اس لئے ہدی کے جانورساتھ لانے والے کے لئے "حج قران "ہی افضل ہے، البتہ جو شخص ہدی ساتھ نہ لائے اس کے لئے "حج تمتع" (یعنی عمرہ سے حلال ہونے کے بعد حج کا احرام باندھنا) افضل ہے، نبی ؐ کے مکہ مکرمہ میں داخل ہونے اور طواف اور سعی سے فارغ ہونے کے بعد یہی بات طے پائی، اور جن صحابہ نے حج قران یا حج افراد کا احرام باندھا تھا آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے احرام کو عمرہ سے بدل دیں ، چنانچہ انہوں نے طواف کیا، سعی کی، بال کٹوائے اور پھر حلال ہو گئے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ہدی کا جانورساتھ نہ لانے والے کے لئے "حج تمتع " افضل ہے۔

حج قران یا افراد کا احرام باندھنے والا جب اپنے احرام کو مرہ سے بدل دے تو وہ متمتع شمار ہو گا، جس شخص نے حج افراد یا قران کی نیت کی ہو اور اس کے پاس ہدی کا جانور نہ ہو تو اس کے لئے مشروع یہ ہے کہ وہ طواف اور سعی کر کے اور بال کٹوا کر حلال ہو جائے اور متمتع بن جائے، جیساکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی ؐ کے حکم سے کیا تھا، نیز آپ ؐ نے فرمایا تھا

" جو بات مجھے بعد میں معلوم ہوئی وہ اگر پہلے معلوم ہو جاتی تو ہدی کا جانور میں ساتھ نہ لاتا اور اپنے احرام کو عمرہ سے بدل دیتا"

عمرہ کرنے والا اگر حج کا ارادہ نہیں رکھتا تو وہ صرف معتمر کہلائے گا، اسے متمتع بھی کہا جاسکتا ہے جیسا کہ بعض صحابہ کے کلام میں استعمال ہوا ہے، مگر فقہاء کی اصطلاح میں ایسا شخص جو موسم حج مثلاً شوال یا ذی قعدہ میں مکہ آئے اور عمرہ کر کے وطن واپس چلا جائے معتمر ہی کہلائے گا، ہاں اگر وہ حج کی نیت کر کے مکہ میں ٹھہر جائے تو متمتع شمار ہو گا، اسی طرح جو شخص رمضان میں یا کسی اور مہینہ میں عمرہ کے لئے مکہ آئے وہ بھی معتمر کہلائے گا، عمرہ کے معنی بیت اللہ کی زیارت کے ہیں۔

حاجی اس صورت میں متمتع کہلائے گا جب وہ رمضان کے بعد موسم حج میں عمرہ کرے اور پھر حج کی نیت سے مکہ میں ٹھہرا رہے اور حج کا وقت ہونے پر حج کرے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ اسی طرح جس نے حج قران کا احرام باندھا اور احرام کو فسخ کئے بغیر حج کے لئے احرام ہی کی حالت میں باقی رہا، وہ بھی متمتع کہلائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے ضمن میں شامل ہے

فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃ إِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیسَرَ مِنَ الَہدْی  

(196) سورۃ البقرۃ

پس جو شخص عمرہ کو حج سے ملا کر تمتع کرنا چاہے تو جو میسرآئے قربانی کرے۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ قارن کو متمتع کہا جاسکتا ہے، نبی کریم ؐ کے اصحاب کے یہاں یہی بات معروف بھی تھی، چنانچہ ابن عمرؓ کی حدیث ہے کہ رسول ؐ نے عمرہ کو حج سے ملا کر تمتع فرمایا ہے، حالانکہ آپ نے حج قران کا احرام باندھا تھا۔ لیکن فقہاء کی اصطلاح میں متمتع وہ شخص ہے جو عمرہ کر کے حلال ہو جائے، پھر مثلاً 8/ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کر حج کرے، اور اگر حج اور عمرہ کا احرام ایک ساتھ باندھے اور بیچ میں عمرہ کر کے حلال نہ ہو تو قارن کہلائے گا، لیکن اگر مطلب اور حکم واضح ہو تو اصطلاح میں کوئی جھگڑا نہیں۔

قارن اور متمتع دونوں کے احکام ایک ہیں ، چنانچہ دونوں کو ہدی قربان کرنی ہو گی، اور ہدی میسرنہ ہونے کی صورت میں تین دن ایام حج میں اور سات دن وطن واپس ہو کر( کل دس دن ) روزہ رکھنا ہو گا، اسی طرح ہر ایک کو متمتع بھی کہا جاسکتا ہے، البتہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے میں دونوں کے احکام علیحدہ ہیں ، چنانچہ جمہور علماء کے نزدیک متمتع کو دو مرتبہ سعی کرنی ہو گی، ایک سعی طواف عمرہ کے ساتھ اور دوسری طواف حج کے ساتھ، جیساکہ ابن عباس ؓ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے، کہ جن صحابہ نے حج تمتع کیا تھا اور عمرہ کر کے حلال ہو گئے تھے انہوں نے دوبارہ سعی کی تھی، ایک طواف عمرہ کے ساتھ اور دوسری طواف حج کے ساتھ، اور یہی جمہور اہل علم کا مسلک ہے۔

البتہ قارن کے لئے صرف ایک سعی کافی ہے، یہ سعی اگر اس نے طواف قدوم کے ساتھ کر لی تو کافی ہے، اور اگر موخر کر کے طواف حج کے ساتھ کی تو بھی کافی ہے۔ یہی قول معتبر ہے اور جمہور اہل علم کا مسلک بھی یہی ہے، یعنی متمتع کو دو مرتبہ سعی کرنی ہو گی اور قارن کو صرف ایک مرتبہ، جسے وہ چاہے تو طواف قدوم کے ساتھ ہی کر لے اور یہی افضل بھی ہے، کیونکہ نبی ؐ نے ایسا ہی کیا تھا، یعنی آپ نے طواف کیا اور اس کے ساتھ ہی سعی بھی کر لی، اور آپ کا یہ طواف طواف قدوم تھا، کیونکہ آپ قارن تھے  اور اگر چاہے تو سعی کو موخر کر کے طواف حج کے ساتھ کرے، اور یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے بندوں کے لئے رحمت اور ایک طرح کی آسانی ہے، والحمد للہ۔

یہاں پر ایک مسئلہ اور ہے جس کے تعلق سے سوال اٹھ سکتا ہے، وہ یہ کہ متمتع اگر عمرہ کر کے سفر کر جائے تو کیا دم دینا (ہدی ذبح کرنا) اس سے ساقط ہو جائے گا ؟ تواس بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، ابن عباس ؓ کا معروف قول یہ ہے کہ متمتع سے دم دینا کسی بھی حال میں ساقط نہیں ہو گا، خواہ وہ اپنے اہل و عیال کے پاس سفر کر جائے یا کہیں اور ، کیونکہ متمتع پر دم واجب ہونے کے دلائل عام ہیں۔ اور اہل علم کی ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ متمتع اگر عمرہ سے فارغ ہو کر قصر کی مسافت تک سفر کر جائے، پھر حج کا احرام باندھ کر لوٹے تو وہ مفرد شمار ہو گا اور دم دینا اس سے ساقط ہو جائے گا۔

اہل علم کی ایک تیسری جماعت اس طرف گئی ہے کہ متمتع سے دم صرف اس صورت میں ساقط ہو گا جب وہ عمرہ سے فارغ ہو کر اپنے اہل و عیال کے پاس چلا جائے۔

 یہی قول حضرت عمرؓ اور ان کے بیٹے عبد اللہ ؓ سے بھی مروی ہے کہ متمتع اگر عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد سفر کر کے اپنے اہل و عیال کے پاس چلا جائے، پھر حج کے لئے واپس مکہ آئے، تو وہ مفرد شمار ہو گا اور اسے دم نہیں دینا ہو گا۔

لیکن اگر اہل و عیال کے پاس جانے کے علاوہ کہیں اور جائے، مثلاً عمرہ اور حج کے درمیان مدینہ چلا جائے یا جدہ یا طائف چلا جائے تو اس سفرکی وجہ سے وہ حج تمتع کے حکم سے باہر نہیں ہو گا۔

دلیل کی رو سے یہی آخری قول ہی زیادہ واضح اور صحیح معلوم ہوتا ہے، یعنی عمرہ اور حج کے درمیان اس قسم کے سفرکی وجہ سے متمتع "حج تمتع" کے حکم سے خارج نہیں ہو گا، بلکہ وہ متمتع شمار ہو گا اور اسے دم دینا ہو گا، بھلے ہی عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد اس نے مدینہ یا جدہ یا طائف کا سفرکیا ہو۔

ہاں اس صورت میں وہ مفرد مان لیا جائے گا جب وہ سفر کر کے اپنے اہل و عیال کے پاس چلا جائے اور پھر میقات سے حج کا احرام باندھ کر مکہ لوٹے، جیساکہ حضرت عمرؓ اور ان کے بیٹے عبد اللہ ؓ کا قول ہے، کیونکہ بال بچوں کے پاس سفر کر جانے سے عمرہ اور حج کے درمیان تعلق باقی نہیں رہ جاتا۔

بہرحال، احتیاط اسی میں ہے کہ اختلاف سے بجتے ہوئے، جیسا کہ ابن عباس ؓ کا مسلک ہے، ہر صورت میں دم دے، بھلے ہی عمرہ کے بعد سفر کر کے وہ اپنے اہل و عیال کے پاس گیا ہو، اسی طرح جو لوگ قصر کی مسافت تک سفر کر جانے سے دم ساقط مانتے ہیں انکے نزدیک احتیاط اسی میں ہے کہ اختلاف سے بچتے ہوئے وہ دم دے اور پوری سنت ادا کرے، بصورت استطاعت یہی بہتر اور افضل ہے، اور دم دینے کی استطاعت نہ ہونے پر تین دن ایام حج میں اور سات دن وطن واپس ہو کر(کل دس دن) روزہ رکھے، جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

  فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃ إِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیسَرَ مِنَ الٰۃدْی  

(196) سورۃ البقرۃ

پس جو شخص عمرہ کو حج سے ملا کر تمتع کرنا چاہے تو جو میسرآئے قربانی کرے۔

اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد متمتع اور قارن سب کو شامل ہے، کیونکہ قارن کو بھی متمتع کہا جاتا ہے، جیساکہ اوپر مذکور ہو چکا ہے  واللہ ولی التوفیق۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول