صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
جدید نظم میں ہیئت کے تجربے
ڈاکٹر شیخ عقیل احمد
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
اردو
ادب میں بہت سارے مسائل ہنوز حل طلب ہیں۔ ’’نظم‘‘ اُن میں سے ایک صنف
ہے۔ ہم جیسے طالب علموں کی سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آئی کہ آخر
وہ کون سی مجبوری تھی کہ مشاہیر ادب نے ایک معروف و مقبول صنف کا نام بھی
’’نظم‘‘ ہی ر کھ دیا جب کہ نثر سے شعری اصناف کو جدا کرنے کے لیے کل شعری
سرما یے کو بھی ’’نظم‘‘ ہی کہا جاتا ہے۔
بہرحال میرا یہ مضمون بھی دو
الگ الگ موضوع کا مجموعہ ہے جدید نظم اور ہیئت کے تجربے۔ ان دونوں موضوعات
پر الگ الگ تفصیلی مضمون لکھنے کی گنجائش بھی ہے اور ضرورت بھی کیوں کہ یہ
تینوں موضوعات ہنوز بحث طلب ہیں۔ نظم پر سب سے پہلے با قا عدہ مضمون
پروفیسر کلیم الدین احمد نے لکھا اور اس کے حدود کی وضاحت کرنے کی کوشش کی
لیکن انہوں نے نظم کی تعریف میں جن پہلو ں پر روشنی دالی اور جن شرائط کو
ضروری قرار دیا وہ نثر کے مقبول اصناف ناول، افسانہ اور ڈرامے وغیرہ
میں بھی مشترک تھے۔لہٰذا بات وہیں کی وہیں رہی۔کلیم الدین احمد کے بعد
متعدد ناقدین نے ا س موضوع پر مضامین لکھے لیکن نظم کی کو ئی جامع تعریف
متعین نہیں کی جا سکی۔ لہٰذا بحیثیت صنف جب بھی ’’نظم‘‘ کی بات کی جاتی ہے
تو اندھیرے کمرے میں کالی بلّی کی تلاشِ بے سود سے زیادہ کچھ ہاتھ نہیں
آتا۔
ڈ اکٹر وزیر آغا نے ’’نظم ‘‘ پر کتابیں ا ور متعدد مضامین لکھے
ہیں جن میں انہوں نے نظم کے مختلف پہلوں پر سیر حاصل بحث کی ہے لیکن غزل
اور نظم کے فرق کی وضاحت کے دوران وہ بھی سرسری طور پر یہ کہتے ہوئے آگے
بڑھ گئے ہیں کہ ’’غزل مشرق کی پیداوار ہے اور نظم مغرب کی‘‘۔ ڈاکٹر
وزیر آغا کا یہ کہنا تو بجا ہے کہ غزل مشرق کی پیداوار ہے لیکن نظم مغرب
سے اسمگل کیا ہوا مال ہے اس کے بارے میں تھوڑا رک کر سوچنا ہو گا کیوں کہ
نظم کی جو بھی تشنہ ہی سہی تعریف ہمارے سامنے ہے اس کی روشنی میں
قصیدہ، مثنوی، رباعی، مرثیہ اور مسدس اور مثمن وغیرہ
بھی نظم کی حدود میں آ جاتے ہیں یا اس سے آگے بڑھ کر اگر ہم اپنے اپنے طور
پر نظم کو سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ بات صاف طور سے سمجھ میں آتی ہے کہ
اردو کا شعری سرمایہ یا ہر وہ منظومہ جو غزل نہیں ہے نظم ہے۔ لہٰذا
اگر آپ ہماری اس بات سے متفق ہیں تو آپ کو ہماری اس بات سے بھی اتفاق ہونا
چاہئے کہ نظم مغرب کی صنف نہیں ہے بلکہ مشرق میں اس کی جڑیں کافی گہری
ہیں۔ البتّہ ۱۸۵۷ کے بعد انگریزی ادب کے زیرِ اثر اور بعد میں انجمن حمایت
اسلام لاہور کے جلسوں کی مدد سے جو شاعری اردو ادب میں متعارف ہوئی اس کا
تعلق مغرب سے ضرور ہے ا ور اسے جدید نظم کہا جا تا ہے۔
ڈاکٹر وزیر
آغا نے غزل کو مشرق اور نظم کو مغرب میں فروغ پانے کی جن سماجی اور معاشی
وجوہات کا ذکر کیا ہے اس سے اتفاق کرتے ہوے میرا یہ ماننا بھی ہے کہ مشرق
میں مشاعرے اور شعری نشستوں کی جو مقبول روایت رہی ہے وہ مغرب میں مفقود
ہے۔لہٰذا مغرب کی شاعری کا تعلق انفرادیت سے قریب رہا جب کہ مشرق میں
اجتماعیت کا رجحان پورے تمکنت کے ساتھ جلوہ گر رہا ہے۔
اقتباس
٭٭٭