صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


ام المومنین حضرت حفصہؓ بنت عمر 

ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

                        نام و نسب اور والدین

    ام المؤمنین حضرت سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں جو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے خلیفہ تھے۔ ان کا نام حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما تھا۔ ان کی نسبت قرشیہ عدویہ ہے، اور ان کی والدہ زینب بنت مظعون بن حبیب بن وہب بن حذافہ بن جمح تھیں۔

    زمانۂ  جاہلیت میں قریش نے مکۂ  مکرمہ میں نظم و نسق قائم رکھنے اور انتشار و افتراق کو ختم کرنے کے لیے آپس میں مختلف قبیلوں کو الگ الگ ذمہ داریاں تقسیم کر رکھی تھیں۔ ام المؤمنین حضرت  حفصہ رضی اللہ عنہا کے قبیلے بنی عدی کے پاس سفارت کا عہدہ تھا۔ یہ وہ قبیلہ تھا جس کا سلسلۂ  نسب دسویں پشت میں لوی پر جا کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا تھا۔اگر کسی دوسرے قبیلے کو قریش کے ساتھ کوئی سیاسی معاملہ پیش آ جاتا تو بنی عدی کے لوگ ہی بہ حیثیت سفیر معاملات طَے کرتے تھے۔ مکۂ  مکرمہ میں ثالثی کے فیصلے اسی قبیلے کو انجام دینا پڑتے تھے، اسلام سے پہلے مکۂ  مکرمہ میں ثالثی اور سفارت کا منصب ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے والدِ گرامی امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اندر معاملہ فہمی، دوراندیشی ، تدبر، فصاحت و بلاغت، عدل و انصاف کی خصوصیات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ قریش کے تمام قبیلوں میں آپ کی شخصیت سب سے ممتاز تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا شمار قریش کے ان سترہ افراد میں ہوتا تھا۔

    جس طرح حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دسیوں پشت پر جا ملتا تھااسی طرح ماں حضرت زینب بنت مظعون کی طرف سے ان کانسب آپﷺ سے کعب میں جا ملتا ہے۔

    اُن دنوں یوں تو دینِ ابراہیمی معدوم ہو چکا تھا اور بیت اللہ شریف میں بت پرستی عروج پر تھی۔ کعبۃ اللہ میں تین سو ساٹھ بت نصب تھے۔ ان حالات کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین سے ناواقف نہیں تھا۔ زید بن عمر و بن نفیل جو کہ  ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے والدِ محترم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے چچا تھے۔ یہ زمانۂ  جاہلیت کے وہ پہلے شخص تھے جن کو کفر و شرک کے اندھیروں میں توحید کی روشنیاں دکھائی دیں اور انھوں نے پکار کرکہا کہ  :’’ اے اللہ ! مَیں تجھ کو گواہ کرتا ہوں کہ مَیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مذہب پر ہوں۔‘‘ اور پھر قریش سے یوں مخاطب ہوئے:’’ اے قریش ! اللہ کی قسم میرے سوا تم میں کوئی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر قائم نہیں۔‘‘

    وہ بتوں کے نام پر قربان کیے گئے ذبیحے نہیں کھاتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کے بڑے سخت مخالف تھے۔ وہ لوگوں کو بت پرستی ترک کرنے کی تلقین کرتے۔ ان کا چچا خطاب بن نفیل اپنے بھتیجے کے اس رویے سے سخت ناراض تھا اور اس کا دشمن بن گیا تھا۔ اور انھیں طرح طرح کی تکلیفیں پہنچانا شروع کر دی ، یہاں تک کہ جب زید بن عمر و بن نفیل یہ مصائب برداشت نہ کر سکے تو ہجرت کر کے حرا میں جا کر رہنے لگے۔

     ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے والد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ انہی زید بن عمر و بن نفیل کے چچا زاد بھائی تھے اس لیے ان کے کانوں میں توحید کی آواز پڑ چکی تھی۔ چوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فطرت بڑی سلیم تھی اور وہ دور اندیش ، عقل مند اور پڑے لکھے شخص تھے اس لیے وہ راہِ حق پر آ گئے۔ نیک کاموں کی طرف ان کی رغبت بڑھ گئی اور وہ اللہ کی رضا و خوشنودی کے متلاشی رہنے لگے۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ خود نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مسلمان ہوتے اُن کے گھر میں اسلام داخل ہو چکا تھا۔ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانِ نبوت فرمایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خاندان کے افراد میں سب سے پہلے زید بن عمر و بن نفیل کے بیٹے حضرت سعید بن زید نے اسلام قبول کیا اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بہن فاطمہ بنت خطاب سے ہوا تو وہ بھی اسلام میں داخل ہو گئیں۔

    نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اعلانِ نبوت فرمایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ستائیس سال کے تھے۔ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ مرادِ رسول بن کر اسلام کے دامن میں آئے اور اپنے سارے خاندان کے ساتھ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار غلام بن گئے۔ 

 ٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول