صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
ہڈیوں کے الفاظ
(ہندی کہانیاں)
ترجمہ: ف س اعجاز
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
سُومنگلی(اقتباس)۔۔ کاویری
’’آہ ! او ماں ! آہ‘‘ بخار سے سگیا بے چین ہے۔ بدن کے درد سے کہیں زیادہ درد اس کے دل میں ہے۔ کیوں کہ اپنے پن کے دو لفظ کسی سے نہیں ملے۔ اس بھری دنیا میں اس کا اپنا کہلانے والا ہے بھی کون؟ کوئی تو نہیں۔ صرف منگلی کتیا ہی ہے جسے وہ اپنا کہہ سکتی ہے۔ اپنی مزدوری کا آدھا حصہ منگلی کو ہی کھلاتی ہے اور آدھے سے اپنا گزارا کرتی ہے۔ جو پیار اسے انسان نہیں دے پایا، وہ پیار اس جانور سے ملا ہے۔
’’کوں .... کوں .... کوں .... کوں ‘‘ منگلی سگیا کے بستر سے لگی بیٹھی تھی۔ سگیا کو اٹھتے دیکھ وہ بھی اُٹھ بیٹھی۔ سگیا اسے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ آمنگلی! تجھے میں کیا کہوں ؟ بہن، بیٹی، ماں یا دادی؟ تو ہی تو میرے لیے سب کچھ ہے۔ جب سے اس جھونپڑی میں آئی ہوں ، تم بھی اسی دن سے ساتھ دے رہی ہو۔ ساتھ دینے کی وجہ بھی تھی۔ ڈراؤنی کالی رات، موسلا دھار بارش اور دل دہلا دینے والی کڑکتی بجلی۔ ڈر کے مارے جان نکلی جا رہی تھی۔ اس وقت تو ہمدرد سہیلی کی طرح جھونپڑی کے باہر بھیگ رہی تھی۔ اس وقت ہم دونوں کو ایک ساتھی کی ضرورت تھی۔ جو کالی ڈراؤنی رات کا سہارا بن سکے۔ لیکن ایسا ہمدرد کہاں ہے جو تمھیں چھوڑ دوں۔؟ آ.... آ.... اور نزدیک آ۔‘‘
سگیا کو اپنی کہانی معلوم نہیں۔ کس نے اسے جنم دیا اور کس نے پالا۔ کچھ بھی تو نہیں جانتی وہ۔ جب سے ہوش سنبھالا تبھی سے اس کی کہانی کی شروعات ہوتی ہے۔ جب وہ آٹھ یا نو سال کی تھی، اپنے کو ٹھیکیدار کی رکھیل ہی سمجھا تھا۔ ٹھیکیدار کے حوالے اسے کس نے کیا تھا یاد نہیں۔ ٹھیکیدار کے مزدوروں کے بیچ وہ بھی کام کرتی۔ دن بھر محنت کرتی تھی اور رات میں کھانا کھانے کے بعد بے کھٹکے سوجاتی تھی۔ سونے کے لیے بھلا غالیچا لگا کمرہ کہاں نصیب ہوتا؟ بس کھلے آسمان کے نیچے ہی اپنی گدڑی بچھا کر سوجاتی۔ جب بلڈنگ تیار ہو جاتی تو گھر کا کچھ سکھ محسوس کر لیتی۔ بعد میں تو ان کے جھولے بے رحمی سے باہر پھینک دیے جاتے۔ سگیا کو یہ سب اچھا نہیں لگتا۔ مر مر کر گھر تیار کرو۔ پر حرامزادے تھوڑے دن بھی چین نہیں لینے دیتے۔ پھینکو پھینکو، سامان باہر نکالو۔ مکان الاٹمنٹ ہو گیا۔ پر اسے سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ موا الاؤٹمنٹ اور فیلاؤٹمنٹ کیا ہوتا ہے۔ اسے لگتا ہے یہ تو بس ہماری گدڑی اور گٹھری کو باہر پھینکنے کا ایک بہانہ ہے۔ بے چاری حسرت بھری نظر سے دیکھتی ہی رہ جاتی۔ سگیا جب با رہ سال کی تھی، تبھی اسے عورت بنا دیا گیا تھا۔ اسے یاد ہے وہ کالی منحوس رات، اپنی ٹولی کے بیچ وہ بے خبر سوئی ہوئی تھی۔ اچانک اس کے جسم پر کچھ وزن سا محسوس ہوا اور اس پر ایک راکشش نما سایہ سوار تھا۔ وہ چیختی رہی، سبکتی رہی، بھگوان کا واسطہ دیتی رہی۔ پر اس کی چیخ پکار رات کے اندھیرے میں غائب ہو گئی اور اس وحشی درندے نے، بھوکے بھیڑیے ٹھیکے دار نے اپنی من مانی کر کے ہی اسے چھوڑا۔ درد کے مارے وہ بے ہوش ہو گئی۔ اس کے سارے کپڑے خون سے تر تھے۔ اس کے جسم کا پور پور پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا۔ صبح آنکھ کھلتے ہی ایک بڑھیا اس کی خدمت کرتی نظر آئی۔ وہ بڑھیا کوئی اور نہیں ساتھ میں کام کرنے والی دکھنا کی ماں تھی۔ اسے قریب پا کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی۔ اس کی گود میں سرچھپا کر کئی گھنٹے تک اپنی بربادی کا ماتم مناتی رہی۔ روتے روتے اس کی بڑی بڑی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک اٹھی تھیں۔ دکھنا کی ماں نے ڈھارس دیتے ہوئے کہا تھا ’’چپ بیٹی، چپ رہ۔ یہ تو ایک نہ ایک دن ہونا ہی تھا۔ پر تو بڑی ابھاگن ہے ری جو اس چھوٹی سی عمر میں ہی سب کچھ جھیلنا پڑا۔ اب ایک دم چپ ہو جا ورنہ اس بھوت کو معلوم ہو گیا تو تیری چمڑی ادھیڑ کر رکھ دے گا۔ ہاں ہم غریبوں کا جنم ہی اسی لیے ہوا ہے۔ ہماری محنت سے عمارتیں بنتی ہیں اور اس انعام کے بدلے ہمارے جسم کو روندا جاتا ہے۔
سگیا کو دوا دارو کے بل پر جلد ہی اچھا کر دیا گیا۔ سارا خرچ اسی کمینے ٹھیکیدار نے اٹھایا تھا۔ لیکن اس دن کے بعد سے تو سگیا پر ظلم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی جو ٹھیکیدار کے خلاف آواز اٹھاتا۔ سگیا دن پر دن ٹوٹتی جا رہی تھی۔ بکھرتی جا رہی تھی۔ پر کس سے کہے اپنا دکھ۔ اگر کام چھوڑتی ہے یا ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی ہے تو بھوکوں مرنے کی نوبت آ جاتی ہے۔ یہ پاپی پیٹ جو نہ کروائے۔ ہاں دکھنا کبھی اپنائیت بھرے ہمدردی کے دو لفظ کہہ جاتا ہے۔ وہ موقع پا کر دکھنا کو اپنا دکھ سنا دیتی۔ دکھنا بھی بھلا کیا کرسکتا تھا۔؟ اسے معلوم تھا کہ جب تک ٹھیکیدار اسے پوری طرح نچوڑ نہیں لے گا، چھوڑے گا نہیں۔ سگیا دکھنا کو ہمت بھی دلاتی۔ لیکن اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ ٹھیکیدار کے ساتھ الجھے۔ وہ جانتا تھا کہ اس بھیڑیے کے پنجے سے کسی کو چھڑانا آسان کام نہیں ہے۔ سگیا ہار مان کر خاموش رہ جاتی۔ چودہ سال کی عمر میں وہ ماں بن گئی۔ جب بچہ پیدا ہوا تو بدنامی کے ڈر سے ٹھیکیدار کے ہوش اڑ گئے۔ اس نے دکھنا کو ڈانٹ پھٹکار کر سگیا کے ساتھ سگائی کروا دی۔ دکھنا نہ چاہتے ہوئے بھی مجبور ہو کر تیار ہو گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭