صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


نیا سال:ہاتھ لا استاد
(ایک انشائیہ)

پروفیسر غلام شبیر رانا

ؔ

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

                            اقتباس

    ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کشا و کارساز
         کئی دنوں سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا تھا کی اچانک میرے دائیں ہاتھ کی جانب سے پروفیسر منظور حسین سیالوی ہاتھ لہراتے ہوئے نمودار ہوئے۔ وہ اس قدر باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں کہ ان کو دیکھتے ہی خوشی سے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ وہ کئی کتب کے مصنف ہیں۔ ان کی تخلیقی فعالیت کے بارے میں کانوں کان خبر نہیں ہوتی مگر ان کی تصانیف کو لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ جب ماحول کی سفاکی کے باعث مہیب سناٹے اور جان لیوا تاریکیاں نوشتہ تقدیر کی صورت مسلط ہو جائیں اور ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا ہو تو ایسے صاحب بصیرت لوگ باتوں باتوں میں ایسی دانائیاں سجھا دیتے ہیں کہ لاتوں کے بھوت بھی اپنی اوقات سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔ آج وہ ہاتھوں میں کاغذ اور قلم تھامے ننگ انسانیت لوگوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے موڈ میں تھے۔ وہ جب گفتگو کرتے ہیں تو ان کی باتوں سے پھول جھڑتے ہیں، کسی کام میں ہاتھ ڈالیں تو ہتھیلی پر سرسوں جمانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور ہر سارق، کفن دزد اور چربہ ساز کو آئینہ دکھانا ان کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ جعل سازی سے قد آور بننے والے ہر متفنی کی ہف وات اور مکر کا پردہ فاش کر کے اسے بونا بنا دیتے ہیں اور اگر جوہر قابل کی پذیرائی کی ٹھان لیں اور مٹی میں ہاتھ ڈالیں تو اسے سونا بنا دیتے ہیں۔ اپنی ہر عظیم الشان کامیابی پر ہاتھ لہرانا اور ہر ظالم کا ہاتھ مروڑنا اور فسطائی جبر کی گردن پر اپنے ہاتھ کی گرفت مضبوط کر کے اسے توڑنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ان کی شخصیت کے متعدد روپ ہیں جو لوگ ان کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلتے ہیں ان کے لیے وہ دید و دل فرش راہ کر دیتے ہیں مگر اجلاف و  ارزال اور  سفہا سے وہ کئی ہاتھ کے فاصلے پر رہتے ہیں۔ مجھ نا تواں پر ان کی عنایات اور التفات میرے استحقاق سے بھی بڑھ کر ہیں۔ ان کے ہاتھوں مجھے ہمیشہ اپنائیت کی نوید ملی ہے۔   وہ اس قدر خوش خصال ہیں کہ ان کی صحبت میں گزرنے والے طویل لمحات بھی پلک جھپکتے میں گزر جاتے ہیں۔ کئی لو گ انھیں صاحب باطن ولی کا درجہ دیتے ہیں۔ کئی ظاہر بین مشکوک نسب کے درندے ہمیشہ ان کے درپئے آزار رہتے ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ جن لوگوں کا بربادیِ گلستاں میں ہاتھ ہوتا ہے سیالوی صاحب انھیں آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ معاشرے میں نہ تو کوئی دیوتا ہے اور نہ ہی کوئی فرشتہ ہے۔ وہ لوگ جن کی گھٹی میں الزام تراشی، بہتان طرازی اور غیبت پڑ گئی ہے، وہ ان کی تر دامنی کے من گھڑت واقعات سنا کر دل کے پھپولے پھوڑتے ہیں۔ سادیت پسندی کے مریض اور خفاش منش انسانوں کے ہاتھوں کسی کی پگڑی محفوظ نہیں۔ ایسے خارش زدہ سگان آوارہ جو جاہ و منصب کی ہڈی کی تلاش میں کوڑے کے ہر ڈھیر کو سونگھتے پھرتے ہیں ان کی سبک نکتہ چینیوں سے ایسے یگانہ روزگار کے افکار کی ضیا پاشیوں کو گہنایا نہیں جا سکتا۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ سیالوی صاحب اگر دامن نچوڑ دین تو فرشتے اس  سے وضو کریں۔ 

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول