صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


ہمیں کیوں پیدا کیا گیا ہے ؟

اورنگزیب یوسف

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                  ٹیکسٹ فائل

ہمیں کیوں پیدا کیا گیا ہے ؟

سب تعریفیں اسی عظیم الشان ذات کے لیے ہیں جس نے کائنات کو پیدا کیا اور اسے رنگ برنگی مخلوق سے سجایا۔ دن کی روشنی اور اس میں قسم قسم کی زندگی کی رعنائیاں، پھولوں کے رنگ و بناوٹ اور خوشبوئیں، سبزہ زار،باغات  اور لہلہاتے کھیت، گیت گاتے پرندے ، طرح طرح کے جانور،بل کھاتی ندیاں،آبشاریں اور جھرنوں بہتا پانی، مرغزاروں اور برف زاروں کے نظارے اور تتلیاں، ہواؤں کی گردش، گھٹائیں، گرجتے بادل ، کڑکتی بجلیاں، بارشیں، دریا ،  سمندر، پہاڑ، درخت، رنگارنگ مخلوق اور نجانے کیا کچھ۔ رات کی تاریکی کا پردہ اور سکون ، قندیلوں کے مانند خوبصورت  ٹمٹماتے ستارے اور ان کی راہ دکھلاتی حسین روشنی اور دل  میں تلاطم برپا کرتی ٹھنڈی مسحور کن چاندنی۔ یہ ساری چیزیں با مقصد اور کسی نہ کسی طرح انسان کی خدمت میں لگی ہوئیں اور اس کو راحت پہنچا رہیں ہیں۔یہ سب اللہ کی نشانیاں ہیں جن پر اگر کھلے دل و دماغ سے غور کیا جائے تو یہ بلا شرکت غیرے بس اپنے خالق و مالک ہی کے کامل علم و حکمت ،بے مثال عظمت و قدرت اور بے نیاز وحدانیت  پر دلالت کرتی ہیں۔


دیکھیے کہ اللہ تبارک تعالی کی تخلیق کردہ  کائنات اور اس کی ہر ہر چیز بامعنی ،با مقصد اور خدا کے متعین کردہ اپنے کام میں مصروف نظر آتی ہے۔ اور یہ تخلیق فضول ہرگز نہیں جیسا کہ اللہ رب العالمین نے خود فرمایا ہے :


سورة ص   ( 38 )

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ {27}

ہم نے اس آسمان اور زمین کو، اور اس دنیا کو جو ان کے درمیان ہے فضول پیدا نہیں کردیاہے۔ یہ تو ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا ہے ، اور ایسے کافروں کے لیے بر بادی ہے جہنم کی آگ سے۔


انہی چیزوں کی پیدائش میں بے شمار نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جوان میں غور و فکر کرتے ہیں اور وہ یہ پکار اٹھتے ہیں کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ پروردگار یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے ، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے۔ پس اے رب!ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے :


سورة آل عمران  (  3  )

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لِّأُوْلِي الألْبَابِ {190} الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىَ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ {191}

زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوشمند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو اُٹھتے ، بیٹھتے ، اور لیٹتے ، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں۔(وہ بے اختیا ر بول اُٹھتے ہیں) ’’پروردگاریہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے ، تُو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے۔ پس اے رب!ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔‘‘


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ کی پیدا کردہ یہ اتنی ساری چیزیں انسان کے فائدے کے کام اور اس کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں، اور جہاں سب کچھ ہی با مقصد ہے تو آخر اس عظیم مخلوق یعنی حضرت انسان کی تخلیق بے مقصد کیسے ہو سکتی ہے ؟آخر اس اشرف المخلوقات کے پیدا کیے جانے کا کیا مقصد ہے ؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب ہم آج تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جو اگر ہم لوگوں سے پوچھیں تو کوئی بڑا  خوش نصیب ہی ہو گا جس نے اپنی زندگی کا شعوری مقصد وہ رکھا ہو جس کے لیے حقیقتاً ہمارے رب نے ہمیں پیدا کیا ہے۔


دیکھیے کہ انسان بھی اپنی سمجھ کے مطابق بامعنی کام ہی کرتا ہے اور با مقصد چیز ہی بناتا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو چیز  جب تک اپنا مقصد پورا کرے کار آمد ہے اور جب اپنی تخلیق کا مقصد پورا نہ کرے تو بے کار۔ یہ باتیں ہی سمجھنے کے لیے ہمیں اللہ نے سماعت و بصارت  کی قوتیں ، عقل و فہم اور سوچنے سمجھنے والے دل عطا فرمائے ہیں۔اب اپنی تخلیق پر غور کیجیے تو عقل سلیم یہ چند باتیں ضرور پوچھے گی جن کے جواب ہم ذیل میں قرآن سے تلاش کر رہے ہیں۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                  ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول