صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
ہندوستانی جمالیات
شکیل الرحمن
دس حصوں میں (اصل کتاب دو جلدوں میں)
ڈاؤن لوڈ کریں
پہلا حصہ: ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
دوسرا حصہ: ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
تیسرا حصہ: ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
چوتھا حصہ: ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
پانچوں حصہ: ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
چھٹا حصہ: ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ساتواں حصہ: ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
آٹھواں حصہ: ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
نواں حصہ: ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
دسواں حصہ: ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ہندوستانی تہذیب کا نظامِ جمال
’ہندوستانی تہذیب، انسان کی اعلیٰ ترین اقدار کا سرچشمہ ہے، اس تہذیب نے ہر عہد میں اعلیٰ اور افضل صفات و اقدار کا شعور عطا کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنی تہذیب اور کلچر کو ’’مانو سنسکرتی‘‘ یا مانو دھرم کے نام سے یاد کیا ہے۔ ہم نے ہمیشہ یہی سمجھا اور سمجھایا ہے کہ ہندوستانی تہذیب اور اس کی ثقافت، آفاقی اقدار کی ترجمان ہے۔ اِس کی آفاقیت کے پیشِ نظر، تاریخ شاہد ہے کہ ہم نے کبھی غلط نہیں سمجھا۔
ہندوستانی تہذیب اور ثقافت کی معنی خیز اور تہہ دار داستان کب شروع ہوتی ہے، تاریخ ابھی تک نہیں بتا سکی ہے اور اس سلسلے میں ’’پہلے عنوان‘‘ کی تلاش بھی ممکن نہیں ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ’انادی‘ (ANADI) ہے یعنی یہ ابتداء کے بغیر ہے! انتہائی پُر اسرار آفاقیت (سناتن) ہے کہ جس کی بے پناہ رومانیت اور جس کے لذّت آمیز ’رس‘ ہی سے محسوسات کی ایک کائنات سامنے آتی ہے۔
ہر عہد میں انسان اور دھرتی اور انسان اور انسان اور کائنات۔ اور فطرت کے رشتوں کی مسلسل تلاش و جستجو نے اپنی سچائی کو پہچانا ہے اور اس معاملے میں ذہن کے دریچے ہمیشہ کھلے رہے ہیں ۔ دوسرے تجربوں کو قبول کرنے اور انہیں اپنے تجربوں سے ہم آہنگ کرنے کا عمل مسل جاری رہا ہے۔
ابدی سچائی یا ایک ہی سچائی کو کبھی کسی نے صفر (شونیہ) سے تعبیر کیا یعنی ’’کچھ نہیں !‘‘ کسی نے اسے ’برہم‘ کہا، کسی نے ’ایشور‘ کسی نے ’شیو‘ اور کسی نے ’بدھ‘ ! کسی نے اسے وقت، یا زمانہ، کہا اور کسی نے اسے ’ذات‘ یا خودی کے نام دیے۔
غور کیجیے تو محسوس ہو گا کہ سب سے اہم تصوّر یا تجربہ، رجحان یا رویہ، ’’یوگ وششٹھ‘‘ (YOGA VASISTHA) کا ہے یعنی مختلف عہد اور زمانے میں اُبھرے ہوئے تمام مختلف اور متضاد راستے ایک ہی عظیم تر حقیقت یا سچّائی کی طرف جاتے ہیں !
یہ رویّہ یا رجحان یا تصوّر اور تجربہ انتہائی غیر معمولی ہے۔ اس سے تہذیب کا ایک منفرد روشن مزاج بنا ہے۔ یہی مزاج ہمیں عزیز تر ہے، یہی مزاج اپنا سب سے عظیم سرمایہ ہے۔ ہم اسے بخوبی پہچانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسے ’’انیک انت‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس کا مفہوم اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ عظیم تر سچّائی کے انگنت پہلو ہیں اور سوچنے والوں نے اپنے اپنے انداز سے اسے پہچاننے کی کوشش کی ہے۔ کوئی ایک پہلو کو پہچانتا ہے اور کوئی دوسرے پہلو کو لیکن ہر صاحبِ نظر نے عظیم تر سچائی کو کسی نہ کسی طرح پہچانا ضرور ہے کسی کی پہچان غلط نہیں ہے۔ لہٰذا ہر پہچان قیمتی ہے۔ اسے اپنی فکر و نظر سے ہم آہنگ کرنا ہی بڑا کام ہے۔ ہم نے یہ کام کیا ہے یہی وجہ ہے کہ اپنی تہذیب کی تاریخ پھیلی ہوئی، تہہ دار اور معنی خیز نظر آتی ہے اور اس میں انگنت تجربوں کی روشنیوں کا جلال و جمال ملتا ہے، اس کے انگنت معنی خیز پہلو ہیں اور ہر پہلو مانند نور ہے۔!
ایسی لچک دنیا کے کسی ملک کی تہذیب و ثقافت میں نہیں ہے۔’انیک انت‘ کے بہتر شعور اور احساس اور اس سچّائی پر مکمل اعتماد کی وجہ سے ہم ایک انتہائی وسیع اور حد درجہ گہرا ’وژن‘ رکھتے ہیں جو تہذیب و تمدن کی تاریخ کے ہر دور میں واضح طور پر محسوس ہوتا ہے اور اپنی اس سچائی کا احساس عطا کرتا ہے۔
٭٭٭