صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


گڑیا گھر
اور دوسرے افسانے

ممتاز مفتی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

دودھیا سویرا

شہر سے دور گرینڈ ٹریفک روڈ کے کنارے پر درختوں کے جھنڈ کے نیچے وہ ایک مختصر سا قبرستان تھا۔ اس میں صرف بیس پچیس قبریں تھیں ۔ جن میں بیشتر کچی تھیں ۔ پختہ قبروں میں صرف دو یا تین نئی معلوم ہوتی تھیں اور ان میں سے ایک سفید ٹائیلوں کی بنی ہوئی تھی۔ اس مختصر قبرستان کے غربی کنارے پر ایک مسجد تھی۔ جس کے باہر چبوترا سا بنا ہوا تھا۔ مشرقی کنارے کے سڑک کے پاس بس سٹینڈ کا بورڈ آویزاں تھا۔ جس کے پاس ایک کچے کمرے میں چائے کا سٹال تھا۔

قبروں پر درختوں کے سوکھے پتے بکھرے پڑے تھے۔ آسمان پر بادل جمع ہو رہے تھے اور قریب ہی پہاڑی نالہ جو جانی کے نام سے مشہور تھا، شور مچاتا ہوا بہہ رہا تھا۔ ان ٹنڈ منڈ درختوں تلے قبرستان میں وہ دوچار اپنے اپنے خیال میں کھوئے ہوئے تھے۔

پتلا دبلا نوجوان منہ میں پائپ دبائے پتلون کی جیبوں میں ہاتھ ٹھونسے اضطراب بھرے انداز سے سوکھے پتوں پر ٹہل رہا تھا۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ رک جاتا اور ایک نظر غور سے قبرستان کی طرف دیکھتا۔ اس کا ہونٹ ڈھلک جاتا۔ پائپ اور کوٹ کی اوپر والی جیب پر جھانکتا۔ پھر وہ آنکھیں اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتا اور ایک لمبی آہ بھر کر پھر سے اضطراب بھرے انداز سے ٹہلنے لگتا۔

مونچھوں والا ادھیڑ عمر کا شخص درخت سے ٹیک لگائے آسمان پر تیرتے ہوئے بادلوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی بڑی بڑی جاذب نظر آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی تھیں ۔ اس کے ہونٹ یوں بند تھے جیسے ڈرتا ہو کہ انہیں کھولا تو اس کا راز فاش ہو جائے گا۔ اس کے ماتھے پر کرب بھری تیوری چڑھی ہوئی تھی جیسے بند ہونٹوں کی وجہ سے دل کا تمام تر دکھ سمٹ کر پیشانی پر آ گیا ہو۔ ہر چار پانچ منٹ کے بعد شدت جذبات سے جھرجھری سی لیتا اور پھر چونک کر مڑتا اور غور سے قبروں کی طرف حسرت سے دیکھتا اور اس کے گالوں پر ایک آنسو ڈھلک آتا جسے چھپانے کے لئے وہ پھر سے آسمان کی طرف دیکھنے لگتا۔

گھٹے ہوئے جسم کا نوجوان کھدر کے کرتے اور پاجامے میں ملبوس تھا اور ایک بڑے سے پتھر پر آلتی پالتی مار کر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا سر منڈا ہوا تھا۔ آنکھیں گویا انگاروں کی طرح روشن تھیں ۔ چھاتی تنی ہوئی جیسے اسے سانس لینے میں بھی لذت محسوس ہو رہی ہو۔ اس کے انداز میں ایک عجیب بے نیازی تھی۔ ایک بے نام سی انبساط اور چپ چاپ گویا بے تعلقی سے قبروں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ دیکھتے دیکھتے اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ سی آ جاتی اور اس کے چہرے پر دودھیا سویرا پھیل جاتا۔

مسجد کے چبوترے پر اچکن میں ملبوس ایک پاکیزہ صورت معمر آدمی دو زانو بیٹھا زیر لب خشوع سے کچھ پڑھ رہا تھا۔

قبرستان کے پیچھے شمال میں دور ٹیلے پر ایک گاؤں کے چند مکانات شام کے دھندلکے میں لپٹے ہوئے تھے اور اس سے پرے شہر کے مینار اور فلک بوس عمارتوں کا ایک ڈھیر سا لگا ہوا تھا۔

دفعتاً سارے آسمان پر بدلیاں چھا گئیں اور بوندیں پڑنے لگیں اور وہ چاروں قبرستان سے بس سٹینڈ کے مختصر سے چائے خانے کی طرف بھاگے۔ چائے خانے کا کمرہ بہت چھوٹا تھا۔ جس میں صرف ایک لمبا سا بینچ، ایک کرسی اور ایک لمبی میز پڑی ہوئی تھی۔ وہاں پہنچ کر وہ سب دیر تک خاموش بیٹھے رہے۔ مونچھ والے نے کوئی بات کرنے کی غرض سے پتلے دبلے نوجوان سے کہا۔ ’’معلوم ہوتا ہے آپ کو بہت صدمہ برداشت کرنا پڑا ہے۔ کتنے مضطرب ہیں آپ بھائی صاحب۔ ‘‘

’’مضطرب‘‘ پتلے دبلے نوجوان نے دہرایا۔ ’’نہیں ، نہیں ۔ ‘‘ وہ اضطراب بھرے انداز میں چلایا۔ ’’میں مضطرب تو نہیں ۔ میری روئداد سن کر کیا کریں گے آپ؟‘‘ وہ بولا اور پھر جواب کا انتظار کئے بغیر ہی اپنی کتھا سنانے لگا۔

’’مجھے اس بات کا دکھ ضرور ہے کہ وہ جوان مرگی کا شکار ہو گئی اور آج اس قبرستان میں مٹی کے ڈھیر تلے بے بس پڑی ہے۔ مگر جہاں تک میرا تعلق ہے، میں خوش ہوں ، مجھے تو یہ خوشی ہے کہ میں اس سحر سے نکل آیا ہوں ۔ اف کس قیامت کا سحر تھا۔ جیسے کسی نے جادو کر رکھا ہو۔ ہاں وہ جادوگرنی تھی۔ ‘‘ وہ خاموش ہو گیا اور ان جانے میں بجھے ہوئے پائپ کے لمبے لمبے کش لینے لگا۔

کھدر پوش نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور زیر لب بولا۔ ’’آپ کو اس سے محبت ہو گی؟‘‘

’’محبت!‘‘ پتلا دبلا نوجوان چلایا۔ ’’مجھے معلوم نہیں لیکن محبت ایسی تو نہیں ہوتی۔ نہیں نہیں ، وہ تو ایک مثبت جذبہ ہے جو اطمینان اور تسکین کا باعث ہوتا ہے۔ ‘‘ پھر وہ یوں بولنے لگا جیسے دیر سے منتظر تھا کہ کوئی اسے چھیڑے۔ ’’اور یہ.... تو ایک بیماری تھی۔ ہاں بیماری۔ ایک ایسی بیماری جس کے تحت مریض خود چاہتا ہے کہ وہ شفا یاب نہ ہو اور ایسے حالات پیدا کر لیتا ہے کہ مرض بڑھتا جائے، دوا کرنے کے باوجود بڑھتا جائے۔ ‘‘

’’عجیب بات ہے۔ ‘‘ اچکن پوش بزرگ نے سر اٹھا کر پہلی مرتبہ دبلے پتلے مضطرب نوجوان کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔

بس سٹینڈ کے اس مختصر سے چائے خانے میں خاموشی چھا گئی۔ باہر ہوا درختوں کے اس جھنڈ میں کراہ رہی تھی۔ چیخ رہی تھی۔

’’ہاں !‘‘ وہ دبلا پتلا نوجوان لمبی آہ بھر کر آپ ہی آپ یوں بڑبڑانے لگا جیسے اپنے آپ سے کہہ رہا ہو۔ جیسے اسے دوسرے اصحاب کی موجودگی کا احساس ہی نہ رہا ہو۔ ’’ہاں عجیب۔ کتنی عجیب عورت تھی وہ کس قدر جاذبیت تھی اس میں ۔ توبہ ہے۔ ‘‘ اس نے جھرجھری لی۔ ’’اس میں نمائش نہیں تھی، نخرا  نہیں تھا، آج کل کی لڑکیوں کی طرح اس کے ہونٹ بٹوے کی طرح کھلتے ملتے نہیں تھے۔ اس کی آنکھیں ڈولتی نہیں تھیں ۔ اس کی بھوئیں تنتی سمٹتی نہیں تھیں ۔ اس کی آنکھوں میں متبسم اشارے نہیں جھلکتے تھے۔ اسے دیکھ کر پیار کرنے کی خواہش پیدا نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ جی چاہتا تھا کہ اس کے قدموں میں گر کر روپڑیں ۔ وہ لڑکی نہیں تھی، مٹیار عورت تھی.... مٹیار عورت۔ اس پر لڑکی پن کبھی نہیں آیا تھا، کبھی نہیں ۔ وہ پیدائشی مٹیار تھی۔ اس میں ایک عجیب سی آن تھی۔ عجیب سی تمکنت.... ایک ایسا احساس جیسے کہ وہ تمام کائنات کا محور ہو، مرکز ہو، اف....!‘‘ پتلے دبلے نوجوان نے یوں لمبی سانس لی جیسے اس کے اندر شعلے بھڑک رہے ہوں ۔ ’’اس کے روبرو اپنی شخصیت شل ہو جاتی تھی۔ اپنی آرزوئیں گویا مفقود ہو جاتی تھیں ۔ جی چاہتا تھا، وہی کریں جو وہ چاہتی ہے۔ جی چاہتا تھا، وہ احکام جاری کرے اور ہم تعمیل کریں ۔ عجیب عورت تھی وہ.... عجیب۔ ‘‘ وہ پھر اپنے خیالات میں کھو کر چپ ہو گیا۔

۔۔۔ اقتباس

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول