صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


گنجلک

مسعود مفتی

ڈرامہ

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

دوسرا سین

(پردہ اُٹھتے ہی عدالت کا اجلاس نظر آتا ہے، وکیل صفائی اپنے دلائل پیش کر رہا ہے۔  حسب سابق کمرے میں کچھ لوگ بیٹھے ہیں )
وکیل صفائی:    جناب والا۔  اپنی پچیس سالہ عدالتی زندگی میں ، میں نے پہلا کیس دیکھا ہے جس میں سارے مجرمان باہر گھوم رہے ہیں اور ایک بے گناہ پر الزام ہے۔  میں جناب والا بے گناہ ہی کہوں گا، باوجود ملزم کے اقبال جرم کے، اس لیے کہ جو کچھ اس نے کیا وہ وہی کرنے پر مجبور تھا اور اگر نہ کرتا تو اس کی زندگی جہنم ہو جاتی اور وہ ایسا فرد بن جاتا جس سے کسی بھی بھیانک عمل کی توقع ہر وقت ہو سکتی۔  جناب والا۔  چونکہ ملزم اقبال جر م کر چکا ہے اس لیے میں تمام گواہوں پر جرح ایک خاص زاویے سے کرتا رہا ہوں تاکہ عدالت کے سامنے ایک طرف ملزم کی ذہنی کیفیت آ جائے، اور دوسری طرف ان طاقت ور محرکات کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس مقدمے میں ایک مجر م نہیں بلکہ کئی مجرم ہیں ، سب سے پہلی مجرم اس کی بیوی امینہ ہے جو اپنی غلطی کو اپنا تمغہ بنا کر عمر بھر کے لیے ملزم کے سینے پر لگانا چاہتی تھی۔  دوسرا مجرم لڑکی کا باپ ہے جس نے اپنے احسانات اور بھائی کی فرمانبرداری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی داغدار لڑکی ملزم پر مسلط کر دی۔  تیسرا مجرم اس لڑکے کا باپ ہے جو اپنی احسانمندی میں بھول گیا کہ اس کا لڑکا ایک علیحدہ اِکائی ہے۔  سوچنے سمجھنے والی اکائی۔  محبت اور نفرت کرنے والی اکائی، طعنوں پر شرم کھانے والی اکائی۔  باپ نے اپنی زندگی گزار لی تھی، بیٹے کو اپنی زندگی گزارنی تھی۔  کار کے فالتو پانچویں پہیے کی طرح اسے ایک پرانی کار سے نہیں جوڑا جا سکتا تھا بلکہ اسے خود زندگی کی حرکت میں رہنا تھا۔  اگر آپ کو سزا دینا ہے تو ان مجرمان کو سزا دیں جو یکے بعد دیگرے ایسے حالات پیدا کرتے گئے جن کا حاصل صرف ایک تھا کہ ملزم اس بچے کو ختم کرے، جو اس کے رقیب کی نشانی بن کر اسے ہر وقت سانپ کی طرح ڈس رہا تھا۔  بے غیرتی کا طعنہ بن کر اس کے رگ و پے میں احساسِ کمتری رچا رہا تھا۔  لوگوں کی ہنسی مذاق کا مستقل نشانہ تھا۔  اس ملزم کو سزا کیوں دیتے ہیں جبکہ اس کو بھی صاف ستھری زندگی بسر کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا مرنے والے بچے کو تھا یا اس کی ماں کو ہے یا دیگر گواہوں کو ہے۔  یہ ملزم اعتراف جرم کے باوجود بے گنا ہے، معصوم ہے، کیونکہ اسے قسمت نے متعدد گناہوں کے سنگم میں ڈبکی دی۔  اسے پکڑنے سے پہلے ان دھاروں کو پکڑیں جو ملزم کی بیوی، ملزم کے باپ اور ملزم کے چچا نے جنم دیے۔  جناب والا۔  یہ زندگی ایک پیچیدہ گنجلک ہے۔  اس میں کوئی پتہ نہیں چلتا کہ کس کے عمل کا تار کس کی قسمت میں اٹکا ہے۔  ہمیں کوئی اندازہ نہیں کہ کہاں سے کھینچ پڑے گی تو کون سی گرہ پکی ہو جائے گی یا کھل جائے گی۔  بعض اوقات ایک جھٹکے سے سارے تار سیدھے ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات صدیوں کی محنت یہ گنجھل نہیں کھول سکتی۔  اور ملزم اس گونجھل کی مرکزی گرہ ہے۔  یہ بے چارہ تین ضابطوں میں بٹا ہوا ہے۔  اوّل خاندانی نظام کا ضابطہ ہے جو گھر اور خاندان کی عزّت کے نام پر قربانی چاہتا ہے۔  دوسرا سوسائٹی کی اقدار کا ضابطہ ہے جو غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کی عزت کرتا ہے۔  اور تیسرا آپ کا قانون ہے جو قاتل کو پھانسی پر لٹکا دیتا ہے۔  جناب والا! اکثر اوقات یہ تینوں ضابطے آپس میں منطبق نہیں ہوتے اور ایک دوسرے کی ضد بن جاتے ہیں ، ایسی صورت میں بے چارہ فرد ان کے تقاضے پورے کرنے میں اس طرح تباہ ہوتا ہے جس طرح کسی جسم کو مختلف اطراف سے کھینچ کر اُس کے چیتھڑے اُڑا دیے جائیں۔  سَر۔  یہ ملزم ایسا ہی فرد ہے۔  اپنے ضابطے پر پرکھنے سے پہلے خدارا سوچیے کہ غیرت کے ضابطے پر اس کا عمل درست ہے یا نہیں۔  اگر یہ آپ کو ناخوش کرتا تو وہ ضابطہ اس سے ناراض رہ کر اُٹھتے بیٹھتے سزا دیتا رہتا ہے۔  اور اگر اسے خوش کرتا ہے تو آپ اسے پھانسی کا پھندا دکھاتے ہیں۔  فرد کی ازلی اور ابدی مجبوری کو دیکھیے جناب والا اور سوچیے کہ ملزم گناہگار ہے یا بے گناہ۔
(وکیل صفائی بات ختم کر کے جھکتا ہے اور پیچھے ہٹ جاتا ہے۔  جج کچھ لکھتا ہے۔  پھر وکیل استغاثہ کی طرف دیکھتا ہے۔  وہ اُٹھ کر اپنے دلائل شروع کرتا ہے)
وکیل استغاثہ:  میں وکیل صفائی کی طرح آپ کو حسین الفاظ کی قوس قزح نہیں دکھاؤں گا بلکہ صرف یہ عرض کروں گا کہ ایک قتل ہوا ہے، قاتل اقبال جر م کرتا ہے۔  گواہان تائید کرتے ہیں ایسی حالت میں قانون کا فیصلہ کیا ہے؟ قانون کسی شخص کو ایسی کوئی زندگی ختم کرنے کی اجازت نہیں دیتا جو ایک دفعہ وجود میں آ گئی ہو۔  قانون کا منشا صرف انصاف ہے۔  قانون کا کام یہ نہیں کہ دلوں کی دھڑکنیں گنتا پھرے یا پیمانے لے کر احساس کمتری کو ماپتا رہے۔  قانون عمل کی سزا دیتا ہے۔  عمل کا جواز نہیں ڈھونڈتا۔  قانون خون کے گرم قطرے کو دیکھتا ہے مقتول کی ٹھنڈی لاش کو دیکھتا ہے۔  پھر اس کا ہاتھ پکڑتا ہے جس نے خون گرایا اور اس قاتل کو سزا دیتا ہے جس نے قتل کیا۔  ہمیں نہ قاتل کی حسرتوں سے واسطہ ہے نہ مقتول کی پلکوں پر آنسو دیکھنے ہیں ، بلکہ قانون کے محدود دائرے میں رہ کر اور جذبات سے بالاتر ہو کر جرم کا جائزہ لینا ہے۔  ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ معاشرے میں کوئی شخص اپنی قانونی حدود سے تجاوز کر کے دوسرے کی قانونی حدود میں دخل اندازی نہ کر سکے۔  ملزم اپنے لیے تو صاف ستھری زندگی کا خواب دیکھتا ہے مگر اسے اس معصوم کھلکھلاتے بچے کو قتل کرنے کا کوئی حق نہیں جو دنیا میں زندگی گزارنے کا ویسا ہی پختہ حق لے کر آیا ہے جیسا ملزم اپنے لیے چاہتا ہے۔  قانون اس حق کو تسلیم کرتا ہے اور چونکہ ملزم نے وہ حق چھینا ہے اس لیے یہ قصور وار ہے اور اسے سزا ملنی چاہیے۔
    (فیڈ آوٹ)


٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول