صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
گنبدِ جاں
حیدر قریشی
مجموعے ”عمرِ گریزاں “ کی غزلیں
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
درد جتنا بھی ترے در سے عطا ہوتا گیا
کاسۂ دل درد مندوں کا دعا ہوتا گیا
برہمی میں وہ نجانے کیا سے کیا کہتے رہے
بے خودی میں ہم سے جانے کیا سے کیا ہوتا گیا
جسم و جاں پر اک عجب مستی سی ہے چھائی ہوئی
اک نظر کے لُطف سے اتنا نشہ ہوتا گیا
پھر مِری شہ رگ سے بھی آتا گیا نزدیک تر
مجھ سے کیا بچھڑا ہے وہ گویا خدا ہوتا گیا
آنکھ میں ، دل میں ، لہو میں رقص فرمانے لگا
کس ادا کے ساتھ وہ مجھ سے جدا ہوتا گیا
گونج اُٹّھیں گنبدِ جاں میں مِری تنہائیاں
کوئی خط خاموش لفظوں سے صدا ہوتا گیا
پھول تھا وہ تو میں خوشبو بن کے اس میں جذب تھا
وہ بنا خوشبو تو میں بادِ صبا ہوتا گیا
جس قدر ہوتا گیا اُس کی محبت کا اسیر
ذات کے زندان سے حیدر رِہا ہوتا گیا
٭٭٭
کون دیکھے گا بھلا میرے خدا میرے بعد
رنگ لائے گی اگر میری دعا میرے بعد
رُو برو میرے بنا بیٹھا تھا پتھر کی طرح
کسی چشمے کی طرح پھُوٹ بہا میرے بعد
عشق کے قصے سبھی مجھ پہ ہوئے آ کے تمام
کوئی مجنوں ، کوئی رانجھا نہ ہوا میرے بعد
اس میں مل جائے گا جا کر مِرے اندر کا خلا
اور بڑھ جائے گا باہر کا خلا میرے بعد
جس نے دشمن کو مِرے قتل پہ اُکسایا ہے
لینا چاہے گا وہی خون بہا میرے بعد
ابھی ممکن ہی نہیں قرض چکانا تیرا
زندگی! قرض ترا ہو گا اَدا میرے بعد
روز طوفان اُٹھانے کی مشقت تھی اسے
دشت بے چارے کو آرام ملا میرے بعد
میرو غالب کی عطا اُن کی زمیں میں یہ غزل
حیدر اوروں پہ بھی ہو گی یہ عطا میرے بعد
٭٭٭