صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


رنگِ گلنار

سرور عالم راز سرور


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

غزلیں

نظر جب سے وہ مہرباں ہوگئی ہے

زمیں عشق کی آسماں ہو گئی ہے

تماشا یہ عمرِرواں ہو گئی ہے

یقیں سے گذر کر گماں ہو گئی ہے

مری خاکساری دلیلِ خودی تھی

یہی بے نشانی نشاں ہوگئی ہے

محبت میں تصویرِغم ہوں سراپا

زباں بے نیازِفغاں ہوگئی ہے

مری داستاں آنسوؤں کی زبانی

یونہی قطرہ قطرہ بیاں ہوگئی ہے

زمانہ کو حیرت ہے کیوں خامشی پر

مری بے زبانی زباں ہوگئی ہے

نظر سے نظر کی شناسائیاں ہیں

گھڑی دو گھڑ ی کو اماں ہوگئی ہے

وہی حسرتیں ہیں، وہی میں ہوں سرور

مکمل مری داستاں ہوگئی ہے


* * * *

دہر میں حرفِ محبت عام ہونا چاہئے

زندگی شائستۂ اسلام ہونا چاہئے

 آدمی کو خوگر آلام ہونا چاہئے

ہر سحر میں کچھ تو رنگ شام ہونا چاہئے

ہر تقاضہ عشق کا بے اصل ہے ،بے اصل ہے

درد کو اپنا ہی خود انعام ہونا چاہئے

مٹ ہی جائے گا کسی دن یہ دلِ درد آشنا

اِس فسانہ کا یہی انجام ہونا چاہئے

شکوۂ دنیا کہاں تک اِس سے کچھ حاصل نہیں

تم کو اپنے کام سے بس کام ہونا چاہئے

منزلِ دل میں بھلا کیا کام عقل و ہوش کا

منزلِ دل میں جنوں سے کام ہونا چاہئے

شعر میں کھل جائیں گے راز و نیازِآگہی

دل کو لیکن مائلِ الہام ہونا چاہئے

لوگ کہتے ہیں تمہیں دیوانہ اے سرورتو کیا

کچھ تو دنیا میں تمہارا نام ہونا چاہئے

* * * * 


یہ اچھا ہوا وہ خفا ہوگیا
چلو یونہی اک سلسلہ ہوگیا

شبِ غم عجب سانحہ ہو گیا
تمہارا تصوّر خدا ہوگیا

زمانہ کی بے چہرگی دیکھ کر
میں خود اپنا ہی آئینہ ہو گیا

عداوت محبت کا ہی عکس ہے
وہ نا آشنا آشنا ہو گیا

تمنا ہی وہ کیا جو پوری ہوئی!!
وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا

تکلف میں آئے نہ تم اور غم
بڑھا اور بڑھ کر دوا ہوگیا

خدا جانے کیا یاد آیا مجھے
یوں ہی ذکر کچھ آپ کا ہو گیا

پڑے خاک سرور ترے عشق پر
ترا حال یہ کیا سے کیا ہوگیا

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول