صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


گلِ تر 

افتخار نسیم

ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

غزلیں

بہت ہی خوش ہوئے اس کو گنوا کے رستے میں

بس ایک دل ہی تھا پتھر انا کے رستے میں


وہ اب بھی راستہ بھولے تو میری قسمت ہے

چراغ رکھ دیئے میں نے جلا کے رستے میں


ابھی نہیں ہے مجھے علم دوست دشمن کا

کہ میں ابھی ہوں کسی کربلا کے رستے میں


پلٹ گئے ہیں سبھی لفظ مدعا میرے

پڑا ہے سنگِ خموشی صدا کے رستے میں


وہ جوہری مجھے ایسے ہی دیکھ لے شاید

کھڑا تو میں بھی ہوں خود کو سجا کے رستے میں


یہ کس کے واسطے گھر سے نکل پڑے ہو نسیم

بدن کی خاک کو لے کر ہوا کے رستے میں

٭٭٭


طاق پر جزدان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں

چل دیئے بیٹے سفر پہ گھر میں مائیں رہ گئیں


ہو گیا خالی نگر بلوائیوں کے خوف سے

آنگنوں میں گھومتی پھرتی ہوائیں رہ گئیں


درمیاں جو کچھ بھی تھا اس کو تو وسعت کھا گئی

ہر طرف ارض و سما میں انتہائیں رہ گئیں


شب گئے، پھرتی ہیں غازہ مل کے بوڑھی خواہشیں

شہر کی سڑکوں پہ اب تو بیسوائیں رہ گئیں


کھولتا ہوں یاد کا در اسم اعظم پھونک کر

اس کھنڈر میں جانے اب کتنی بلائیں رہ گئیں


زندگی چلتی ہے کیسے ناز نخرے سے نسیم

اس طوائف میں وہی پہلی ادائیں رہ گئیں

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول