صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


گلینا

گلینا وشنے وسکایا
ترجمہ: شاہد ندیم

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                             ٹیکسٹ فائل

                     اقتباس

1952 کا موسم بہار، میں ایک دن لینن گراد کی، نے وسکی سڑک پر بے فکری سے چہل قدمی کر رہی تھی۔ خوشیوں اور امنگوں سے بھرپور، دھوپ کھلی ہوئی تھی، موسم سہانا ہو رہا تھا۔موسم گرما کے باغ کی طرف سے، دائیں جانب گھومتے ہی میرے قدم دفعتاً رک گئے۔ ادا کاروں کی عمارت پر لگے ہوئے اشتہار پر نظر پڑی۔ بڑے بڑے حروف میں اعلان تھا:

 "سویت یونین کے بالشوئی تھیٹر نے ست روز گروپ کے انتخاب کے لیے مقابلہ کا اہتمام کیا ہے۔"

 بہت سے لوگ یہ اشتہار دیکھ رہے تھے، میں نے ان سے پوچھا " آپ کو معلوم ہے ست روز کا کیا مطلب ہے؟"

 "نوجوانوں کا گروپ، آج اس مقابلے کا تیسرا دن ہے۔ "

 اس سال گرمیوں میں بالشوئی تھیٹر کے نمائندے روس کے تقریباً سبھی بڑے شہروں میں گلو کاروں کی آواز کی جانچ کر رہے تھے، اس مقابلے کا پہلا دور مقامی شہروں میں ہوا تھا۔ دوسرا اور تیسرا دور ماسکو کے بالشوئی تھیٹر میں منعقد کیا گیا تھا۔ میری عمر اس وقت پچیس برس تھی اور میں نے اس وقت تک کسی مقابلے میں حصہ نہیں لیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر گانے والوں کے ایک گروہ میں شامل ہو کر میں نے سب سے پہلے پیٹ بھرنے کے لیے گانا شروع کیا تھا۔ یہ گروہ جنگ میں برباد و بدحال روسی علاقوں میں گھوما کرتا تھا۔ رات میں سونے کے لیے جہاں جیسی جگہ ملتی، سب اکٹھے سو جاتے۔ غسل خانے اور بیت الخلا ہمارے استعمال میں نہیں رہتے، اکثر راتیں سڑکوں پر گذرتیں۔ ان کھلی سڑکوں پر کڑاکے کا جاڑا پڑتا جو اکثر صفر سے تیس درجہ نیچے تک پہنچ جاتا، ہم سردی سے ٹھٹھرتے سمٹتے کلبوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے۔ ان کلبوں کی دیواریں برف سے ڈھک جاتیں۔ سپاہی اور ملاح اوور کوٹ اور ٹوپیاں پہنے زمین پر بیٹھے رہتے۔

 بعد میں ، میں ایک یا دو مہینے کے لمبے سفر پر جانے لگی۔ ان اسفار کے دوران مجھے تقریباً ہر روز ایک پروگرام کرنا ہوتا۔ ایک قصبے سے دوسرے قصبے میں پہنچتی، گندے ہوٹلوں میں ٹھہرتی، کھٹملوں سے بھرے بستروں پر۔۔۔ ایک پروگرام کے لیے مجھے کل تیس روپیے ملتے۔

۔ ۔۔لیکن آج میں کھڑی ہوئی بالشوئی تھیٹر کا اشتہار پڑھ رہی تھی:

 میں اندر داخل ہوئی، ہال چھوٹا اور تاریک تھا۔ ممتحن اسٹیج کے پاس میز لگائے بیٹھے تھے۔ میں نے چاروں طرف دیکھا۔ پیانو نواز یسودا پطروشوا نظر آ گئی، میں ان کے ساتھ کام کرتی تھی۔ وہ اپنے کسی دوست کی آواز کے امتحان کے لیے آئی تھی۔ ہم دونوں ساتھ ساتھ بیٹھ گئیں اور دو گھنٹہ تک نوجوان گلوکاروں کا گیت سنتے رہے۔ اچانک یسودا نے جھک کر مجھ سے کہا:

 "تم بھی کیوں نہیں آزما کر دیکھتیں !"

 "ہاں ، کیوں نہیں۔ "

 جب سستانے کے لیے مقابلہ تھوڑی دیر کے لیے روک دیا گیا تو میں ممتحن کے کمرے میں جا پہنچی اور بولی " میں بھی آپ کو گیت سنانا چاہتی ہوں۔ "

 "ٹھیک ہے، ہم آج ہی شام چار بجے تمھارا امتحان لیں گے۔"

 میں اپنی موسیقی کی استاد ویرانکو لائینویگرینا سے ملنے کے لیے دوڑ پڑی۔ گذشتہ دو سال سے وہ مجھے گانا سکھا رہی تھیں۔ انھوں نے گانے کا ریاض کرایا اور امتحان کے لیے چند خاص باتیں بتائیں۔

اقتباس

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں  

   ورڈ فائل                                             ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں  مشکل؟؟؟

یہاں  تشریف لائیں ۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں  میں  استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں  ہے۔

صفحہ اول