صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
گورکی کے افسانے
ترجمہ:سعادت حسن منٹو
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
میدانوں میں
ہم نے پیری کوپ کو طبیعت کے انتہائی چڑچڑے پن اور بد ترین صورت حال کے تحت یعنی جنگلی بھیڑیوں کی طرح گرسنہ اور تمام دنیا سے متنفر خیر باد کہا تھا مکمل بارہ گھنٹے ہم نے اس کوشش میں صرف کر دیئے تھے کہ کسی نہ کسی طرح.... جائز یا نا جائز طریقے، چوری کے ذریعے یا خود کما کر پیٹ پوجا کا سامان کریں ، مگر جب ہمیں اس امر کا پورا یقین ہو گیا کہ ہم اپنے مقصد میں کسی طرح کامیاب نہیں ہو سکتے، تو ہم نے آگے بڑھنے کا قصد کیا.... کدھر؟.... بس ذرا آ گئے!
یہ فیصلہ اتفاق آراء سے منظور ہو گیا۔ اب ہم زندگی کی اس شاہراہ پر جس پر ہم ایک مدت سے گامزن تھے سفر کرنے کو تیار تھے۔ اس امر کا فیصلہ بالکل خاموشی میں ہوا۔اگر اس فیصلے کو کوئی چیز نمایاں طور پر ظاہر کرنے والی تھی تو ہماری گرسنہ آنکھوں کی خشم ناک چمک تھی۔
ہماری جماعت تین افراد پر مشتمل تھی۔ جن کی شناسائی کو ابھی بہت مدت نہ گذری تھی۔ ہماری دوستی دریائے نیپئر کے کنارے خر سون کی ایک سرائے میں واقع ہوئی تھی۔ ہم میں سے ایک ریلوے پویس میں سپاہی رہا تھا اور اس کے بعد پولیستان میں ایک مزدور کی حیثیت سے کام کرتا رہا تھا یہ شخص بہت تنو مند اور جسیم تھا اور بال سرخ.... جرمن زبان بول سکتا تھا اور قید خانے کی اندرونی زندگی سے بہت اچھی طرح واقف تھا۔
ہماری قسم کے لوگ اپنی زندگی کے گذشتہ حالات پر روشنی ڈالنے کے خیال کو بہت برا تصور کرتے ہیں ، بعض ناگزیر وجوہ کے باعث ہمیشہ خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمیں اس کا کامل یقین تھا کہ ہمارے ہر ساتھی کے ساتھ ایک نہ ایک تلخ حکایت ضرور وابستہ ہے مگر ہم نے ان سے اس داستان کے بارے میں کبھی استفسار نہ کیا تھا۔
جب ہمارے ایک ساتھی نے ہمیں بتایا کہ وہ ماسکو یونیورسٹی کا طالب علم رہ چکا ہے تو ہمیں اس کی بات کا یقین ہو گیا۔ دراصل ہمارے لئے یہ چیز کو ئی اہمیت نہ رکھتی تھی کہ وہ گذشتہ ایام میں چور تھا یا سپاہی۔ قابل ذکر بات تو یہ تھی کہ وہ جب ہم سے ملا، بالکل ہم جیسا تھا، اور ہماری طرح پولیس اور دیہات والوں میں مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ اور وہ جواب میں ان سب کو ایک تعاقب زدہ بھوکے درندے کی طرح افسردہ اور نفرت کی نگاہوں سے دیکھتا تھا .... قصہ کو تاہ ان خیالات اور موجودہ حالات کی رو سے وہ ہم میں سے ایک تھا۔
مشترکہ مصائب، متضاد طبائع میں اتحاد پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں اور ہمیں اس کا پور یقین تھا کہ ہم مصیبت زدہ ہیں۔ تیسرا میں تھا.... اپنے شرمیلے پن کی وجہ سے جو بچپن سے میری خصوصیت رہی ہے، میں اپنی صفات کا تذکرہ بے سود سمجھتا ہوں۔ میری عادات و خصائل پر روشنی ڈالنے کے لئے بس اتنا کہنا کافی ہو گا کہ میں اپنے آپ کو اور وں سے ہمیشہ اچھا اور اعلیٰ سمجھتا رہا ہوں .... اور آج بھی میرا یہی عقیدہ ہے۔
ان حالات کے تحت ہم پیری کوپ کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ رہے تھے ہمارا اولین مقصد کسی گڈرئیے کا دروازہ کھٹکھٹا کر روٹی مانگنا تھا۔ یہ لوگ عموماً کسی جہاں گرد سائل کو مایوس لوٹنے نہیں دیتے۔
میں اور سپاہی پہلو بہ پہلو چل رہے تھے۔ طالب علم ہمارے پیچھے آ رہا تھا جس کے کاندھوں پر کوئی کپڑا سا لٹک رہا تھا، جس نے کبھی جیکٹ کا کام دیا ہو گا۔ ایک بوسیدہ اور چوڑے کنارے والی ٹوپی اس کے بد وضع سر کی زینت ہو رہی تھی، پتلی ٹانگوں کو ایک پرانی پیوند زدہ پتلون چھپا رہی تھی اور پاؤں میں کسی ٹوٹے ہوئے بوٹ کے تلوے، جو غالباً کسی سڑک پر سے اٹھائے تھے، ایک رسی سے بندھے ہوئے تھے.... اس اختراع کو وہ چپلیوں کے نام سے پکارتا تھا۔وہ سڑک پر گرد اڑاتا اور اپنی چھوٹی چھوٹی سبزی مائل آنکھیں جھپکاتا، خاموشی کے ساتھ چلا آ رہا تھا۔
سپاہی ایک سرخ قمیص پہنے ہوئے تھا جو بقول اس کے اس نے خود اپنی محنت کے پیسوں سے فرسون میں خریدی تھی۔ اس قمیض پر ایک گرم اور نرم سی واسکٹ نظر آ رہی تھی۔ ٹانگوں پر ایک کھلا پاجامہ لپٹا ہوا تھا سر پر اس نے ایک فوجی ٹوپی ترچھے انداز میں پہن رکھی تھی۔ پاؤں میں بوٹ وغیرہ کچھ بھی نہیں تھے۔
میں نے کپڑے تو پہنے ہوئے تھے مگر ننگے پاؤں تھا۔
ہم چلتے رہے.... ہمارے چاروں طرف میدان تھا جس میں گھاس اگ رہی تھی ، وہ موسم گرما کے نیلگوں آسمان کے نیچے بڑھتے گئے.... کہیں کہیں کٹی ہوئی فصل کے نشانات بھی دکھائی دے رہے تھے، جو بعینہ سپاہی کے نہ منڈے ہوئے گالوں کے مانند تھے۔
وہ بھدی اور کن سڑی آواز میں ایک مذہبی گیت گانے میں مصروف تھا۔ دوران ملازمت میں وہ کسی گرجے میں نو کر بھی رہ چکا تھا اس لئے لازمی طور پر اسے بے شمار مذہبی گیت زبانی یاد تھے۔ اور ہم سے دوران گفتگو اکثر اس قسم کی معلومات کا بے جا تذکرہ بھی کیا کرتا تھا۔
اب ہمارے سامنے افق پر دھندلی سی لکیریں نمودار ہو رہی تھیں جن کا رنگ بنفشی سے ہلکا زرد ہوتا چلا جا رہا تھا۔
’’ یہ کریمیا کی پہاڑیاں ہیں ‘‘ طالب علم نے اپنی پھٹی آواز میں کہا’ پہاڑیاں معلوم ہوتی ہیں۔‘‘
سپاہی نے طنز یہ لہجے میں اس سے کہا’’ بہت تیز نظر ہے تمہاری، یہ تو بادل ہیں ، محض بادل! اور بادل بھی کیسے، جیسے انناس کا مربہ دودھ میں بھیگ رہا ہے!‘‘
’’آہ، کاش یہ واقعی مربہ ہوتے!! اس تشبیہ نے میری بھوک پر تازیانے کا کام کیا۔‘‘
’’ خدا کی قسم‘‘! سپاہی نے جھلا کر کہا’’ کاش ہمیں کوئی انسان مل جائے!.... مگر یہاں تو کسی کا نام و نشان تک بھی نہیں ، معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں بھی موسم سرما کے ریچھ کی طرح اپنے پنجے چوس کر گذارہ کرنا ہو گا!‘‘
’’ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ ہمیں آبادی کا رخ کرنا چاہئے‘‘ طالب علم نے افسردہ لہجے میں کہا۔
’’ تم نے کہا تھا!.... یہ تمہارا ہی حصہ تھا، تعلیم یافتہ جو ٹھہرے تم!.... مگر کہاں ہیں وہ آباد مقامات جن کا تم ذکر کر رہے ہو‘‘ سپاہی طالب علم پر برس پڑا۔
طالب علم نے جواب میں اپنے ہونٹ چبانے شروع کر دیئے۔ اور خاموش ہو گیا۔
سورج غروب ہو رہا تھا۔ بادل رنگا رنگ کے لباس بدل رہے تھے۔ شورے اور مٹی کی خوشبو نے ہماری بھوک کو اور بھی مشتعل کر دیا۔ انتڑیاں قل ہو اللہ پڑھ رہی تھیں۔ اور ایک ناخوشگوار سی لہر بدن میں دوڑ رہی تھی۔ منہ اور حلق خشک ہو گیا تھا دماغ سخت پریشانی میں گرفتار تھا۔ سر چکرانے لگا اور عجیب قسم کے سیاہ دھبے آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگے۔ یہ دھبے کبھی گوشت کے بھنے ہوئے تکڑوں کی اور کبھی روٹیوں کی شکل اختیار کر لیتے.... ذہن نے ان کی یاد تازہ کر دی اور یہ اصل معلوم ہونے لگے، حتیٰ کہ ان کی خوشبو تک بھی آنے لگی۔ اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ کوئی پیٹ میں نو کیلا خنجر گھونپ رہا ہے۔ لیکن اب اس اذیت کے با وصف ہم بھیڑوں کے نشانات دیکھنے اور کسی پھلوں سے لدے ہوئے چھکڑے کے پہیوں کی آواز سننے کے لئے ادھر ادھر نگاہ دوڑاتے اور کان کھولے چلتے رہے.... مگر میدان خاموش اور سنسان تھا۔
اس پُر تکان سے پیشتر شام کو ہم سب نے صرف دو سیر کچی روٹی اور پانچ تربوز کھائے تھے، ہمیں کوئی چالیس میل کے قریب چلنا پڑا تھا۔ خرچ آمدن کی نسبت زیادہ تھا۔ ہم مارکیٹ میں سو رہے تھے کہ ہمیں بھوک نے آ جگایا۔۔۔ اقتباس
٭٭٭