صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
گوپی چند نارنگ نمبر
عکاس
مدیر: ارشد خالد
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
پروفیسر گوپی چند اور جامعہ ملیہ اسلامیہ
پروفیسر مسعود حسین خاں
(سابق وائس چانسلر۔جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی)(خود نوشت سوانح ’’ورودِ مسعود‘‘ سے ماخوذ)
میں ذاتی علم کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ نارنگ صاحب فرقہ وارانہ ذہن نہیں رکھتے۔لیکن جب دیگر اساتذہ نے ان کے خلاف اس حربے کو استعمال کرنا چاہا تو پھر انہوں نے بھی اس کے استعمال میں دریغ نہیں کیا۔جامعہ کالج میں ہندو طلبہ کا تعلق بیشتر سماج کے ان طبقات سے تھا جہاں فرقہ واریت کے جذبات عام تھے۔وہ جامعہ کی روایات سے بھی واقف نہیں تھے،نہ اس کے خلقیہ سے۔انہیں میں ایک شورہ پشت نوجوان رہتاس نامی تھا جس کا تعلق پاس پڑوس کے ایک گاؤں جلینا سے تھا۔میں اُسے شورہ پشت اس لیے کہہ رہا ہوں کہ وہ ہمیشہ جامعہ کو بدنام کرنے کے درپے رہتا۔ایک بار اُس نے سیڑھیاں لگا کر جامعہ کالج کی تمام عمارتوں پر نعرے لکھ دیے تھے۔جب میں نے اس سے باز پرس کی تو ہنس کر کہا ’’شیخ الجامعہ صاحب ان عمارتوں پر کئی سال سے قلعی اور رنگ نہیں ہوا ہے۔چاہتا ہوں کہ اسی طرح ہو جائے !‘‘ خیر تو نارنگ صاحب نے سیاست کا جواب سیاست سے دینے کے لیے اس سے اور اس جیسے چند طالب علموں سے ربط ضبط پیدا کیا اور جامعہ میں مسلم فرقہ واریت، کے نقطے پر دونوں ہم رائے ہو گئے۔اس شورہ پشت نے اس کی اطلاع معاشیات کے شعبے کے (جہاں وہ طالب علم تھا)ایک مسلمان استاد انور رضا رضوی صاحب کو دی جو نارنگ صاحب کی تاک میں تھے۔دونوں میں سانٹھ گانٹھ ہوئی۔انہوں نے اسے امتحان میں بہت اونچے نمبر دینے کا وعدہ کیا اور اس نے نارنگ صاحب کی گفتگو کو ٹیپ کرنے کی پیش کش کی۔چنانچہ اسے ایک نہایت اثر پذیر ٹیپ ریکارڈر فراہم کیا گیا۔اس نے پلان کے مطابق نارنگ صاحب کو ٹیلی فون کیا۔گفتگو کا سلسلہ جامعہ ملیہ سے شروع ہوا اور یہاں ہندو طالب علموں سے جو تعصب برتا جاتا ہے اس سے ہوتا ہوا بعض اشخاص تک جا پہنچا۔جن کے بارے میں اس نے اس انداز سے سوالات کیے کہ نارنگ صاحب کھل گئے۔ٹیلی فون پر گفتگو کا یہ سلسلہ تقریباً آدھ گھنٹے چلتا رہا اور ٹیپ ہوتا رہا۔نارنگ صاحب کو یہ سان گمان بھی نہ ہوا کہ میری صدا بندی کی جا رہی ہے۔غرض کہ اس نے اپنے سوالات سے ان سے ایسے جوابات حاصل کر لیے جن سے ان کے دل کی بات کا پتہ چلتا تھا۔یہ اُس نے اس امید میں کہ اب تو مجھے بی اے میں فرسٹ کلاس مل ہی جائے گا،اپنے معاشیات کے استاد کو لا کر دیا۔وہ دوسرے دن فاتحانہ انداز میں میرے مکان پر آئے اور بولے ’’شیخ الجامعہ صاحب! میں آپ کو ایک ٹیپ سنانا چاہتا ہوں ‘‘۔میں نے سنا تو حیرت میں رہ گیا۔لیکن گولی بندوق سے نکل چکی تھی۔اس کے بعد وہ ٹیپ جگہ جگہ سنایا گیا۔ٹیپ سے مزید بنائے گئے اور اب وہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے بڑے بڑے مجمعوں کو سنایا جانے لگا۔مجھ سے مانگ کی گئی کہ مجلسِ عاملہ کا خصوصی جلسہ طلب کر کے نارنگ صاحب کو فوری طور پر معطل کیا جائے۔۔۔۔۔۔میں اپنی تجویز پر اڑا رہا اور کہتا رہا کہ جامعہ برادری اس سے قبل جامعہ کی عمارتوں پر جو کچھ ان کے بارے میں لکھتی رہی ہے وہ اس سے کہیں زیادہ سخت تھا جو کچھ کہ نارنگ صاحب نے جامعہ کے بعض اصحاب کے بارے میں ٹیلی فون پر کہا ہے۔بہر حال ہنگامہ آرائی بڑھتی رہی اور اب ہمہ وقتی سیاست بازوں نے اس کا رُخ نارنگ صاحب کے بجائے میری جانب پھیر دیا۔صدر شعبہ کا ایک خفیہ اجلاس ہوا جس میں میرے خلاف عدم اعتماد کا میمورنڈم تیار کیا گیا۔ اور وہ اشوکا ہوٹل جا کر جسٹس ہدایت اللہ امیر جامعہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔۔۔۔۔میں نے ان سے اس مسئلے پر گفتگو کرنی چاہی،انہوں نے اغماز کیا اور میمورنڈم کو اس لائق تک نہیں سمجھا کہ مجھ سے تفصیلات تک پوچھتے۔اتنے میں بھبھکتی ہوئی کافی کے دو پیالے آ گئے اور ہم لوگ اس سے لطف اندوز ہونے لگے۔جسٹس ہدایت اللہ کا مجھ پر اور میرا اُن پر جو اعتماد تھا وہ اور بڑھ گیا۔نارنگ صاحب کے خلاف جامعہ میں تحریک جب کسی طرح ختم ہوتی نظر نہ آئی تو مجھے پولیس کے مشورے پر تین اساتذہ اور ایک طالب علم کے مچلکوں کے لیے اجازت دینا پڑی۔اس کے بعد خدا خدا کر کے دن رات کے وہ میلے ختم ہوئے جہاں ٹیپ بجا کر نارنگ صاحب کے خلاف جذبات کو بھڑکایا جاتا تھا۔اس واقعۂ نارنگ پر سب سے اچھا تبصرہ امیر جامعہ(چانسلر جامعہ ملیہ)ہی نے کیا۔ایک ملاقات میں کہنے لگے ’’مسعود صاحب! یہ پروفیسر صاحبان کتنے عقل مند لوگ ہوتے ہیں کہ طالب علموں سے آدھ آدھ گھنٹہ ٹیلی فون پر بات کرتے ہیں اور ان کا عندیہ نہیں سمجھ پاتے ؟‘‘ ۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱
یہ وہی معروف ٹیپ تھا جس میں رہتاس نامی طالب علم سے گفتگو کرتے ہوئے نارنگ صاحب نے اپنا دل کھول دیا تھا۔اس ٹیپ کو سننے والوں کا کہنا ہے کہ نارنگ صاحب نے پوری ہندوستانی مسلم قوم کے بارے میں ایسے خیالات ظاہر کیے تھے جیسے آر ایس ایس اور شیو سینا والے بھی بس خاص خاص مواقع پر ہی ظاہر کرتے ہیں۔انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو ’’مسلمانوں اور اسلامیت‘‘ سے ہمیشہ کے لیے آزاد کرا لینے کے لیے مبینہ طور پر ایک طویل جدوجہد کا خاکہ پیش کیا تھا۔عین ممکن ہے کہ انسانی اقدار کے حامل کشادہ ذہن دانشور مسعود حسین خاں کا مشاہدہ اور معلومات اپنی جگہ درست ہوں کہ نارنگ صاحب کو بائیں بازو والوں اور بعض مفاد پرستوں ہدف بنایا ہوا تھا اور انہیں ایسی باتیں کہنے پر مجبور ہونا پڑا جو ان کے اندر فطری طور پر موجود تھیں۔
(فاروق ارگلی کا خصوصی نوٹ۔بحوالہ ’’تماشائے اہلِ قلم‘‘ صفحہ نمبر ۹۴۔مرتب فاروق ارگلی)
***