صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


گرہن اور دوسری کہانیاں

راجندر سنگھ بیدی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

                                 گرہن۔ اقتباس

روپو، شبو، کتھو اور منا۔۔۔ہولی نے اساڑھی کے کائستھوں کے چار بچے دئیے تھے اور پانچواں چند مہینوں میں جننے والی تھی۔ اس کی آنکھوں کے گرد گہرے، سیاہ حلقے پڑنے لگے، گالوں کی ہڈیاں ابھر آئیں اور گوشت ان میں پچک گیا۔ وہ ہولی جسے پہل پہل میا پیار سے چاند رانی کہہ کر پکارا کرتی تھی اور جس کی صحت اور سندرتاکارسیلا حاسد تھا، گرے ہوئے پتے کی طرح زرد اور پژمردہ ہو چکی تھی۔ آج رات چاند گرہن تھا۔ سرشام چاند گرہن کے زمرہ میں داخل ہو جاتا ہے ہولی کو اجازت نہ تھی کہ وہ کپڑا پھاڑ سکے۔۔۔ پیٹ میں بچے کے کان پھٹ جائیں گے، وہ سی نہ سکتی تھی۔۔۔ منہ سلا بچہ پیدا ہو گا۔ اپنے میکے خط نہ لکھ سکتی تھی۔۔۔ اس کے ٹیڑھے میڑے حروف بچے کے چہرے پر لکھے جائیں گے اور اپنے میکے خط لکھنے کا اسے بڑا چاؤ تھا۔ میکے کا نام آتے ہی اس کا تمام جسم ایک نامعلوم جذبے سے کانپ اٹھتا۔ وہ میکے تھی تو اسے سسرال کا کتنا چاؤ تھا۔ لیکن اب وہ سسرال سے اتنی سیر ہو چکی تھی کہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔ اس بات کا اس نے کئی مرتبہ تہیہ بھی کر لیا لیکن ہر دفعہ ناکام رہی۔ اس کا میکہ اساڑھی گاؤں سے پچیس میل کے فاصلے پر تھا۔ سمندر کے کنارے ہر پھول بندر پر شام کے وقت اسٹیمر لانچ مل جاتا تھا اور ساحل کے ساتھ ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹے کی مسافت کے بعد اس کے میکے گاؤں کے بڑے مندر کے زنگ خوردہ کلس دکھائی دینے لگتے۔ آج شام ہونے سے پہلے روٹی، چوکا برتن کے کام سے فارغ ہونا تھا میا کہتی تھی گرہن سے پہلے روٹی وغیرہ کھا لینی چاہئے ورنہ ہر حرکت پیٹ میں بچے کے جسم و تقدیر پر اثر انداز ہوتی ہے۔ گویا وہ بد زیب، فراخ نتھنوں والی ہٹیلی میااپنی بہوحمیدہ بانو کے پیٹ سے کسی اکبر اعظم کی متوقع ہے۔ چار بچوں تین مردوں، دو عورتوں، چار بھینسوں پر مشتمل بڑا کنبہ اور اکیلی ہولی۔۔۔دوپہر تک تو ہولی برتنوں کا انبار صاف کرتی رہی۔ پھر جانوروں کے لئے بنولے، کھلی اور چنے بھگونے چلی۔ حتیٰ کہ اس کے کولہے درد سے پھٹنے لگے اور بغاوت پسند بچہ پیٹ میں اپنی بضاعت مگر ہولی کو تڑپا دینے والی حرکتوں سے احتجاج کرنے لگا۔ ہولی شکست کے احساس سے چوکی پر بیٹھ گئی لیکن وہ بہت دیر تک چوکی یا فرش پر بیٹھے کے قابل نہ تھی اور پھر میا کے خیال کے مطابق چوڑی چکلی چوکی پر بہت دیر بیٹھنے سے بچے کا سر چپٹا ہو جاتا ہے۔ مونڈھا ہو تو اچھا ہے۔ کبھی کبھی ہولی میا اور کائستھوں کی آنکھ بچا کر گھاٹ پر سیدھی پڑ جاتی اور ایک شکم پر کتیا کی طرح ٹانگوں کو اچھی طرح پھیلا کر جماہی لیتی اور پھر اسی وقت کانپتے ہوئے ہاتھ سے اپنے ننھے سے دوزخ کو سہلانے لگتی۔

 ٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول