صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں 


جراحت افکار

ڈاکٹرمحمدشرف الدین ساحل

تنقیدی مضامین

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

شاہدکبیرکی پہچان



سائنسی علوم کی ترقی، مادیت کی برتری، روحانیت کوکچلنے کی سازش، معاشی بحران سے پیدا ہونے والے حالات اورجنسی بے راہ روی نے نئی شاعری کے لیے زمین ہموارکی۔اس کو ۱۹۶۰ء کے بعد بیشتر جدیدتعلیم یافتہ نوجوانوں نے اپنے خیال کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ پھر ہوایہ کہ کچھ خبط الہواس، ناقص العقل اور بے مقصد زندگی گزارنے والے بھی اس صف میں در آئے۔ ان سب نے اپنی اپنی سوچ کے مطابق نئی شاعری کے نام سے اپنے تجربے، مطالعے اورمشاہدے کارس ٹپکایااوراس میں جھلاہٹ، جنجھلاہٹ، مایوسی اوربیزاری کی کڑواہٹ تھوکی، نتیجہ یہ نکلاکہ گزشتہ چاردہوں کے بیچ منتشر خیالات کااس قدر ذخیرہ کتابی صورت میں سامنے آیاکہ بعض اچھے شاعروں کی فکراس ہنگامے میں گم ہوگئی اوراب توانا پسند طبیعتوں کی تخلیق کردہ یہ نئی شاعری بھی چراغ سحری کی طرح آخری سانس لے رہی ہے۔ اسی نے مابعد جدیدیت کاسوال پیداکیا ہے۔

شاہد کبیر اسی نئی شاعری کے اپنے قدوقامت کی طرح ایک قدآور شاعر تسلیم کئے گئے ہیں ۔ ان کی شاعری کاپہلا مجموعہ مٹی کامکان ۱۹۷۹ء میں منصہ شہود پرآیاتھا۔ اب پہچان شائع ہے(۱۹۹۹ء)۔ جس میں مٹی کے مکان میں موجودتمام کلام بھی شامل ہے۔ گویاپہچان میں ان کے خیال کی وہ ساری کسک ہے جسے وہ ۱۹۶۰ء کے بعد لگاتے رہے ہیں ۔ وہ ساری کمائی ہے جواس پورے دورمیں انھوں نے کی ہے۔

ان کی شاعری کاتجزیہ کرنے پرپتہ چلتاہے کہ وہ ایک ایسے جدیدیانئے شاعرہیں جو قدیم طرزواسلوب کانہ صرف احترام کرتے ہیں بلکہ اس سے استفادہ بھی کرتے ہیں ۔ اگرچہ اپنی بات کہنے کے لیے بیشتر علامت کاسہارالیتے ہیں لیکن اسلوب و لفظیات کے معاملے میں کلاسیکل طرزکوہی محبوب جانتے ہیں ۔ وہ میرتقی میر کی طرح سادہ، سہل اور آسان لفظوں میں شعرکہنے کے عادی ہیں ۔ ان کاپورا کلام دیکھ لیجئے انھوں نے کہیں بھی لغت کااحسان نہیں اٹھایاہے۔ یہاں اس کے ثبوت میں ان کی صرف ایک غزل نقل کی جاتی ہے:

دعا دو ہمیں بھی ٹھکانہ ملے

پرندو تمہیں آشیانہ ملے

طبیعت سے مجھ سے ملیں میرے دوست

مرے دوستوں سے زمانہ ملے

سمندر تری پیاس بجھتی رہے

بھٹکتی ندی کو ٹھکانہ ملے

ترستا ہوں ننھے سے لب کی طرح

تبسم کا کوئی بہانہ ملے

ملے اس طرح سب سے شاہد کبیر

کوئی دوست جیسے پرانا ملے

شاہد نے جوعلامتیں استعمال کی ہیں ان میں ساحل، پانی، موج، دریا، ریت، سمندر، چہرہ، شہر، پتھر، سورج ، صحرا، دھوپ، دیوار اورگھرکواہمیت حاصل ہے۔ انھوں نے ان علامتوں کواپنے شعروں میں اس خوبی کے ساتھ برتاہے کہ انھیں طاقت گویائی مل گئی ہے۔ ایک محاکاتی شعرہے۔ کوئی شاہد کانام ریتیلی زمین پر لکھ کرمٹادیتاہے لیکن وہ یقین کی اس منزل پہ ہیں :

میں جنبش انگشت میں محفوظ رہوں گا

ہر چند مجھے ریت پہ تو لکھ کے مٹادے

ممکن ہے اس شعرکوہوس پسندکچھ اورمفہوم دیں لیکن یہ سورج کی علامت سے اس قدر جامع ہوگیاہے کہ محاکاتی شاعری کااعلانمونہ بن گیاہے:

کچھ تو ہو رات کی سرحد میں اترنے کی سزا

گرم سورج کو سمندر میں ڈبویاجائے

عصرحاضر میں انسان کی زندگی کاجوحال ہے۔ کیااس سے بہتر اس کی تمثیل ہوسکتی ہے:

جورنگ بھردو، اسی رنگ میں نظر آئے

یہ زندگی نہ ہوئی، کانچ کا گلاس ہوا

شاہد زندگی سے بیزارجدیدیے نہیں ہیں ۔ اپنادامن چاک کرکے سڑکوں پرگھومنا انھیں گوارانہیں ۔ بلکہ کوئی بھی حالت ہواپنے گھرسے رشتہ استوار رکھتے ہیں ۔ یہ ان کے تہذیب نفس کی دین ہے کہ انھوں نے اس پرانتشار دورمیں بھی اس کاپورا خیال رکھا ہے۔ وہ دن کے ہنگاموں میں جی بھرکے بھٹکتے رہنے کے باوجود بھی رات ہوتے ہی گھر لوٹنے کی سوچتے ہیں :

دن کے ہنگاموں میں جی بھرکے بھٹک لوشاہد

رات ہوتے ہی تمہیں لوٹ کے گھر جاناہے

یہ نتیجہ ہے ایک ایسی سوچ کاجوایک شریف النفس انسان کے ضمیر سے تعلق رکھتی ہے۔ جو اپنے خاندان کوہی دوسروں پرفوقیت دتیاہے:

باندھ رکھا ہے کسی سوچ نے گھر سے ہم کو

ورنہ اپنا درو دیوار سے رشتہ کیا ہے

جودن بھرشہر ہوس میں رہنے کے باوجود، رات کے وقت اپنے گھر کا خیال کرنے لگتا ہے:

شہر ہوس میں دن کا ڈوبا سورج ہوں میں 

رات ہوتے ہی اپنے گھرمیں نکل آؤنگا

شاہد کے یہاں اس قسم کی علامتیں معنی خیز ہیں ۔ وہ ان کی مددسے جو خیالات پیش کرتے ہیں ان میں گہرائی وگیرائی ہوتی ہے۔ وہ قاری کو سوچنے پرمجبور کرتے ہیں ۔ یہاں اس قبیل کے چند شعراورنقل کیے جاتے ہیں :

بنے گا عکس جو پانی میں ، ٹوٹ جائے گا

اس آئینے کو بہت ہی سنبھال کر رکھنا

خوف سورج کی تمازت کا، نہ سائے کا ملال

کانچ کا گھر ہے مرا، دھوپ، نہ چھاؤں والا

اندر کا سکوت کہہ رہا ہے

مٹی کا مکان بہہ رہا ہے

اس سے ساحل پہ تڑپنا مرا دیکھا نہ گیا

موج اک کرگئی طوفاں کے حوالے مجھ کو

سروں کو ریت کے اندر چھپائے بیٹھے ہیں 

ہے سب کو خوف یہاں اپنی اپنی جانوں کا

ابھی کہاگیاہے کہ شاہد کوتہذیب نفس اورشرافت بے انتہا عزیزہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ اسے تارتار دیکھتے ہیں توان کی آنکھیں بے انتہا غصے سے سرخ ہوجاتی ہیں اور ان کا غصہ ان کی آنکھوں سے لہوبن کر اس طرح ٹپکتاہے:

آج ہم بچھڑے تو پھر کتنے رنگیلے ہوگئے

میری آنکھیں سرخ تیرے ہاتھ پیلے ہوگئے

اب تری یادوں کے نشتر بھی ہوئے جاتے ہیں کند

ہم کو کتنے روز اپنے زخم چھیلے ہوگئے

اب کوئی امید ہے شاہد نہ کوئی آرزو

آسرے ٹوٹے تو جینے کے وسیلے ہوگئے

زبردست حادثے کے بعدبھی یہ عزم شاہد کی زندہ دلی کی علامت ہے۔ آخرتقدیر بھی تو کوئی چیزہے۔ اسی لیے تو وہ اپنے ساتھی کویہ مشورہ دیتے ہیں :

عجب سکون سا ملتا ہے نامرادی میں 

جو میرا حال ہے وہ اپنا حال کر دیکھو

شاہد گناہ اوراس کے نتائج سے پوری طرح باخبرہیں ۔ اس لیے وہ وادی ہوس تک پہنچ کر باربار واپس آتے ہیں ۔ ان کایہ فتویٰ ہے:

وہ شخص جو دیتاہے گناہوں کی گواہی

اس کو بھی برابر کا گنہگار سمجھنا

بھلا جو شخص یہ جانتاہووہ پاکیزہ نہیں تو اورکیاہوگا۔ شاہد یہ بھی جانتے ہیں کہ جوموج عصیاں میں غرق ہوجائے اس کو باہر نکالنا ممکن نہیں ہے:

مچھلی نہیں کہ ڈال کے کانٹا نکال لو

اس کو نگل چکا ہے سمندر گناہ کا

ا س لیے ان کی صفائی قلب پر شک نہیں کیاجاسکتا۔ اسی صفائی قلب نے ان سے اس قسم کے شعرکہلوائے:

پیار سے جتنی گزر جائے غنیمت ہے یہاں 

لفظ کو دھار نہ دے بات کو خنجر نہ بنا

بھیک پانے کیلیے دست طلب کافی ہے

مانگنے والے کا رتبہ نہیں دیکھا جاتا

کچھ تو رکھو کسی سے تعلق کے واسطے

یوں بے ثمر رہوگے تو پتھر نہ آئے گا

اپنے حق میں کوئی کچھ بھی نہیں کرنے والا

دے کے خیرات فقیروں کی دعا لی جائے

فطرت میں قناعت ہوتو اچھا سا لگے ہے

کاسے میں پڑا سنگ بھی سکہ سا لگے ہے

اسی نے شاہد کوعشق ومحبت کے اتنے لطیف آداب سکھائے کہ وہ ایک ایسے محبوب کے گرویدہ ہوئے جس کی شکل وصورت کوتصویر کی گرفت میں لاناان کے لیے ناممکن ہوگیا:

بہت دنوں سے ہے اک عکس میری آنکھوں میں 

مگر میں اس کو کوئی شکل دے نہیں سکتا

جوانھیں خواب میں اکثر دکھائی دیتاہے لیکن عالم بیداری میں اس کو پاناان کے لیے دشوار ہوگیا:

کہاں ہے، کون ہے، اس کاکوئی وجود بھی ہے

جو خواب میں مجھے اکثر دکھائی دیتا ہے

گویا ان کا عشق اذیت ناک ہے۔ روحانی کرب کاباعث ہے۔ وہ ایسے محبوب کی یاد میں سزاکاٹ رہے ہیں جس کابظاہر کوئی وجود نہیں ہے:

جاکے ملتا ہوں ، نہ اپنا ہی پتہ دیتاہوں 

میں اسے ہی نہیں خود کو بھی سزا دیتا ہوں 

اس تناظر میں شاہد کی یہ غزل دیکھئے۔ کس قدر معنی خیزہے۔ اس کے شعروں میں کم و بیش وہی جذبہ ملتاہے جس کا ذکراوپر کیاگیاہے۔ یہاں بھی وہی سوال ہاتھ باندھے کھڑا ہے:

کہاں ہے، کون ہے، اس کاکوئی وجود بھی ہے

غزل دیکھئے:

وہ اپنے طور پہ دیتا رہا سزا مجھ کو

ہزار بار لکھا اور مٹا دیا مجھ کو

خبر ہے اپنی، نہ راہوں کا کچھ پتہ مجھ کو

لئے چلی ہے کوئی دور کی صدا مجھ کو

اگر ہے جسم تو چھوکر مجھے یقین دلا

تو عکس ہے تو کبھی آئینہ بنا مجھ کو

چراغ ہوں مجھے دامن کی اوٹ میں لے لے

کھلی ہوا میں سر راہ مت جلا مجھ کو

تمام عمر میں سایہ بنا رہا اس کا

اس آرزو میں کہ وہ مڑ کے دیکھتا مجھ کو

عشق ومحبت کایہ راستہ تکلیف دہ ہے۔ اس پہ وہی ثابت قدم رہ سکتاہے جس میں صبر و شکر کی قوت ہو۔ جوحوصلہ مندہو اوراذیت کوبرداشت کرنے کی سکت رکھتاہو۔ چندشعر اوردیکھئے۔ ان میں بھی وہی جذبہ، تڑپ، تکلیف اوراحساس ملتاہے:

میں ترے لمس کے احساس میں ڈھل جاؤنگا

دور سے دیکھ لے چھوکر مجھے پتھر نہ بنا

وہ شخص دور سے کتنا قریب لگتا تھا

گلے لگا ہے تو اک فاصلہ سا لگتا ہے

قریب ہم ہی نہ جب ہوسکے تو کیا حاصل

مکان دونوں کا ہر چند پاس پاس ہوا

جیسے گل ہوتی چلی جائے چراغوں کی قطار

جب کوئی روٹھ کے جاتا ہوتو منظر دیکھو

لیکن اس قدر لطیف احساس وخیال رکھنے والا شاعربھی مطالعہ کی رومیں ہوس کے دلدل میں جاگرااورنفس امارہ سے بری طرح شکست کھاکر اس منزل پہ جاپہنچا جہاں انسان عتاب کاشکارہوتاہے۔ دراصل یہ ایک سچائی ہے کہ بعض انسان سیماب فطرت ہوتے ہیں ۔ وہ اپنی اناکی تسکین کے لیے ذائقہ بدلتے رہتے ہیں ۔ وہ ایک جیسی چیز سے مطمئن نہیں ہوتے بلکہ سائیکل سے کود کر لوناپہ اورلونا سے کودکر اسکوٹر پر چڑھتے ہیں ۔ یہاں بھی انھیں قرارنہیں آتا۔ قرارکہاں سے آسکتاہے۔ ان کاایمان تومادے ر ہے۔ یہی مادیت منظرنامے کوتیزی سے بدلتی ہے اوریہ نتیجہ سامنے آتاہے:

فضا بدلنے کی رفتار کا یہ عالم ہے

ذرا جو دیر ہوئی گھر نیا سا لگتا ہے

اسی تلون مزاجی نے شاہد سے اس قسم کے شعرکہلوائے جوان کی معتوبی کاباعث ہیں ۔ یہ صحت مندہیں بلکہ مریضانہ سوچ کے عکاس ہیں :

بج گئے رات کے دو اب تو وہ آنے سے رہے

آج اپنا ہی بدن اوڑھ کے سویا جائے

دن میں سمٹا ہوا رہتا ہے بدن میں اپنے

رات ہوتے ہی وہ بستر کی طرح کھلتا ہے

بارش میں بھیگنے کا مزہ اس کو آگیا

کپڑوں کے ساتھ ساتھ بدن کو نچوڑ کے

کچھ تو اپنی بھی طبیعت کا پتہ دینا تھا

اس نے جب ہاتھ ملایا تھا دبا دینا تھا

رات بھر شاہد کوئی پہلو میں تھا

آپ نے کروٹ ہی کوئی لی نہیں 

شاہد کی فکری نشوونما معاشی ان کے بیچ ہوئی ہے۔ اس لیے ان کے یہاں اس کی جو تصویریں ملتی ہیں ۔ وہ انتہائی کربناک ہیں ۔ وہ یہ بتائی ہیں روحانیت پرمادیت کی فتح معاشی بدحالی کے سبب کس طرح ہوتی ہے یامسلسل غم انسان کوکس طرح مردہ ضمیر کردیتا ہے۔ صرف دوشعر:

ان کو بھی بہا لے گئے ناقوس ملوں کے

جو صبح کو جاگے تھے موذن کی صدا سے

مغموم بھی اتنے کہ کوئی غم نہیں باقی

محروم بھی ایسے کہ طلب تک نہیں معلوم

ان کے یہاں عصری حسیت بھی جگہ جگہ ملتی ہے۔ انھوں نے حقائق کوشعر کے پیکرمیں اس خوبی سے ڈھالاہے کہ منظرنگاہوں کے سامنے گھومنے لگتا ہے۔ چندشعر:

جتن ہزار کیے ہر لباس میں پھر بھی

وہ جسم ہے کہ برابر دکھائی دیتا ہے

تما م شہر میں رونق بلا کی ہے ، لیکن

ہر اک چراغ کا چہرہ بجھا سا لگتا ہے

کیا وقت پڑا ہے آدمی پر

سائے سے لپٹ کے رو رہا ہے

یہی وہ حقائق ہیں جوان کے نام کو اردوشاعری میں زندہ رکھیں گے اور نئی شاعری میں ان کے شاعرانہ مرتبے کاتعین کرنے میں معاون ومددگار ثابت ہوں گے۔

مطبوعہ:ماہنامہ اردومیلہ، ناگپور، جون ۲۰۰۲ء


***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں ۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں  ہے۔

صفحہ اول