صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
غبارِ خاطر
مولانا ابو الکلام آزاد
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
خط نمبر ۱۵
قلعۂ احمد نگر
5 دسمبر 1942ء
صدیق مکرم
پانچویں
صلیبی حملہ کی سرگزشت ایک فرانسیسی مجاہد "Crusader' ژے آن دو ژواین
ویل(Jean De Jain Ville) نامی نے بطور یادداشت کے قلم بند کی ہے۔ اس کے
کئی انگریزی ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔ زیادہ متداول نسخہ ایوری مینس
لائبریری کا ہے۔
پانچواں صلیبی حملہ سینٹ لوئس (Lewis) شاہ فرانس نے
براہ راست مصر پر کیا تھا۔ دمیاط (Demietta) کا عارضی قبضہ، قاہرہ کی طرف
اقدام، ساحل نیل کی لڑائی، صلیبیوں کی شکست، خود سینٹ لوئس کی گرفتاری اور
زرِ فدیہ کے معاہدہ پر رہائی، تاریخ کے مشہور واقعات ہیں، اور عرب مؤرخوں
نے ان کی تمام تفصیلات قلم بند کی ہیں۔ لوئس رہائی کے بعد عکہ (Acre) آیا
جو چند دوسرے ساحلی مقامات کے ساتھ صلیبیوں کے قبضہ میں باقی رہ گیا تھا،
اور کئی سال وہاں مقیم رہا۔ ژواین ویل نے یہ تمام زمانہ لوئس کی ہمراہی
میں بسر کیا۔ مصر اور عکہ کے تمام اہم واقعات اس کے چشم دید واقعات ہیں۔
لوئس
1248ء میں فرانس سے روانہ ہوا۔ دوسرے سال دمیاط پہنچا۔ تیسرے سال عکہ، پھر
1254ء میں فرانس واپس ہوا۔ یہ سنین اگر ہجری سنین سے مطابق کیے
جائیں تو تقریباً 646ھ اور 656ھ ہوتے ہیں۔
ژواین ویل جب لوئس کے
ہمراہ فرانس سے روانہ ہوا تو اس کی عمر چوبیس برس کی تھی۔ لیکن یہ یادداشت
اس نے بہت عرصہ کے بعد اپنی زندگی کے آخری سالوں میں لکھی۔ یعنی 1309)ء
،708ھ) میں۔ جب اس کی عمر خود اس کی تصریح کے مطابق پچاسی برس کی ہو چکی
تھی، اور صلیبی حملہ کے واقعات پر نصف صدی کی مدت گذر چکی تھی، اس طرح
کوئی تصریح موجود نہیں جس کی بنا پر خیال کیا جا سکے کہ مصر اور فلسطین کے
قیام کے زمانہ میں وہ اہم واقعات قلم بند کر لیا کرتا تھا۔ پس جو کچھ اس
نے لکھا ہے، وہ پچاس برس پیشتر کے حوادث کی ایک ایسی روایت ہے، جو اس کے
حافظہ نے محفوظ کر لی تھی، با ایں ہمہ اس کے بیانات جہاں تک واقعات جنگ کا
تعلق ہے، عام طور پر قابلِ وثوق تسلیم کیے گئے ہیں۔
مسلمانوں کے
دینی عقائد و اعمال اور اخلاق و عادات کی نسبت اس کی معلومات ازمنۂ وسطی
کی عام فرنگی معلومات سے چنداں مختلف نہیں۔ تاہم درجہ کا فرق ضرور ہے
چونکہ اب یورپ اور مشرق وسطیٰ کے باہمی تعلقات جو صلیبی لڑائیوں کے سائے
میں نشوونما پائے رہے تھے۔ تقریباً ڈیڑھ سو برس کا زمانہ گذر چکا تھا، اور
فلسطین کے نو آباد صلیبی مجاہد اب مسلمانوں کو زیادہ قریب ہو کر دیکھنے
لگے تھے، اس لیے قدرتی طور پر ژو این ویل کے ذہنی تاثرات کی نوعیت سے
مختلف دکھائی دیتی ہے جو ابتدائی عہد کے صلیبیوں کے رہ چکے ہیں، مسلمان
کافر ہیں، ہیدین (Heathen) ہیں، پے نیم (Paynim) ہیں، پے گن (Pagan) ہیں،
مسیح کے دشمن ہیں۔ تاہم کچھ اچھی باتیں بھی انکی نسبت خیال میں لائی جا
سکتی ہیں اور ان کے طور طریقہ میں تمام باتیں بری نہیں ہیں۔ مصری حکومت
اور اس کے ملکی اور فوجی نظام کے بارے میں اس نے جو کچھ لکھا ہے وہ ستر
فیصد کے قریب صحیح ہے۔ لیکن مسلمانوں کے دینی عقائد و اعمال کے بیانات میں
پچیس فیصد سے زیادہ صحت نہیں۔ پہلی معلومات غالباً اس کی ذاتی ہیں، اس لیے
صحت سے قریب تر ہیں۔ دوسری معلومات زیادہ تر فلسطین کے کلیسائی حلقوں سے
حاصل کی گئی ہیں، اس لیے تعصّب و نفرت پر مبنی ہیں۔ اس عہد کی عام فضا
دیکھتے ہوئے یہ صورتِ حال چنداں تعجّب انگیز نہیں۔
ایک عرصہ کے بعد
مجھے اس کتاب کے دیکھنے کا یہاں پھر اتفاق ہوا۔ ایک رفیقِ زنداں نے ایوری
مینس لائبریری کی کچھ کتابیں منگوائی تھیں، ان میں یہ بھی آ گئی۔ اس سلسلہ
میں دو خصوصیت کے ساتھ قابل غور ہیں۔
قیام عکہ کے زمانے میں لوئس
نے ایک سفیر سلطانِ دمشق کے پاس بھیجا تھا جس کے ساتھ ایک شخص ایوے لا
برتیاں (Yevo La Bretan) بطور مترجم ساتھ گیا تھا۔ یہ شخص مسیحی واعظوں کے
ایک حلقہ سے تعلق رکھتا تھا اور "مسلمانوں کی زبان" سے واقف تھا۔
"مسلمانوں کی زبان" سے مقصود یقیناً عربی ہے۔ ژو این ویل اس سفارت کا ذکر
کرتے ہوئے لکھتا ہے:
“جب سفیر اپنی قیام گاہ سے سلدان (سلطان) کے محل
کی طرف جا رہا تھا تو لا برتیاں کو راستہ میں ایک مسلمان بڑھیا عورت ملی۔
اس کے داہنے ہاتھ میں ایک برتن آگ کا تھا بائیں ہاتھ میں پانی کی صراحی
تھی۔ لا برتیاں نے اس عورت سے پوچھا "یہ چیزیں کیوں اور کہاں لے جا رہی
ہو؟" عورت نے کہا "میں چاہتی ہوں اِس آگ سے جنت کو جلا دوں اور پانی سے
جہنم کی آگ بجھا دوں تاکہ پھر دونوں کا نام و نشان باقی نہ رہے" لا برتیاں
نے کہا کہ "تم ایسا کیوں کرنا چاہتی ہو؟" اس نے جواب دیا "اس لیے کہ کسی
انسان کے لیے اس کا موقعہ باقی نہ رہے کہ جنت کے لالچ اور جہنم کے ڈر سے
نیک کام کرے۔ پھر وہ جو کچھ کرے گا صرف خدا کی محبت کے لیے کریگا۔"
(Memoires of The Crusades: 240)
اس روایت کا ایک عجیب پہلو یہ ہے
کہ بجنسٖہ یہی عمل اور یہی قول حضرت رابعہ بصریہ سے منقول ہے۔ اِس وقت
کتابیں یہاں موجود نہیں، لیکن حافظہ کی مدد لے کر یہ کہہ سکتا ہوں کہ
قُشیری، ابو طالب مکی، فرید الدین عطار، صاحب عرائس المجالس، صاحبِ روح
البیان اور شعرانی، سب سے یہ مقولہ نقل کیا ہے اور اسے رابعہ بصریہ کے
فضائلِ مقامات میں سے قرار دیا ہے۔
رابعہ بصریہ پہلے طبقہ کی کبارِ
صُوفیہ میں شمار کی گئی ہیں۔ دوسری صدی ہجری یعنی آٹھویں صدی مسیحی میں ان
کا انتقال ہوا۔ اُن کے حالات میں سب لکھتے ہیں کہ ایک دن اِس عالم
میں گھر سے نکلیں کہ ایک ہاتھ میں آگ کا برتن تھا دوسرے میں پانی کا کوزہ۔
لوگوں نے پوچھا کہاں جا رہی ہو، جواب میں بجنسٖہ وہی بات کہی جو لا برتیاں
نے دمشق کی عورت کی زبانی نقل کی ہے۔ "آگ سے جنت کو جلا دینا چاہتی
ہوں، پانی سے دوزخ کی آگ بجھا دینی چاہتی ہوں تاکہ دونوں ختم ہو
جائیں اور پھر لوگ عبادت صرف خدا کے لیے کریں۔ جنت اور دوزخ کے طمع و خوف
سے نہ کریں۔" قدرتی طور پر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوسری صدی ہجری
کی رابعہ بصریہ کا مقولہ کس طرح ساتویں صدی ہجری کی ایک عورت کی زبان پر
طاری ہو گیا جو دمشق کی سڑک سے گزر رہی تھی؟ یہ کیا بات ہے کہ تعبیرِ
معارف کی ایک خاص تمثیل (پارٹ) جو پانچ سو برس پہلے بصرہ کے ایک کُوچہ میں
دکھائی گئی تھی بعینٖہ اب دمشق کی ایک شاہراہ پر دہرائی جا رہی ہے؟ کیا یہ
محض افکار و احوال کا تَوَارد ہے، یا تکرار اور نقالی ہے؟ یا پھر راوی کی
ایک افسانہ تراشی؟
٭٭٭