صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


اردو غزل۔۔تکنیک، ہیئت اور عروض کے خد و خال

ارشد محمود  ناشاد


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                      ٹیکسٹ فائل

تکنیک 

    تکنیک کے لغوی معانی کا دائرہ صنعت گری، مہارت، کاری گری، طریقِ کار اور لائحۂ عمل کو محیط ہے۔ تکنیک انگریزی زبان کے لفظ Technique کی مبدل اُردو صورت ہے۔ انگریزی زبان و ادب میں بھی Technique کا لفظ انہی معانی کا حامل ہے؛ دیکھیے:

1.  " Method of performance; Manipulation; every thing concerned with mechanical part of an artistic performance." (1)

2,  "A method of doing or performing some thing; especially in the arts or science."(2)                                                                                                                        

تکنیک کا اصطلاحی مفہوم اگرچہ وسیع اور گہری معنویت رکھتا ہے تاہم لغوی معانی کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے۔ تخلیق کار تجربے یا مشاہدے کو بعینہٖ قاری تک پہنچانے کے لیے جن ذرائع کا سہارا لیتا ہے وہ ذرائع اور ان ذرائع کا باہمی تناسب و توازن تکنیک کا مرہونِ منت ہے۔ مشرقی ادبیات کی قدیم اصطلاحوں اسلوب، طرزِ ادا اور روشِ تحریر کا مفہوم تکنیک کی معنویاتی فضا سے کسی حد تک ہم آہنگ نظر آتا ہے۔ تکنیک کی کوئی جامع اور معین تعریف تو ممکن نہیں کیوں کہ فن پارے کے اظہار کے تمام ذرائع اور ان ذرائع کے ربط و ضبط کا معروضی تجزیہ نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم تکنیک کے اصطلاحی خط و خال اور اس کے دائرۂ کار کی تفہیم اور اس کی ضرورت و افادیت کی تعیین میں مندرجہ ذیل اقتباسات کسی حد تک ہماری معاونت کر سکتے ہیں۔

1. "   The manner or ability with which a writer (or other artist) uses  the  skills  of his craft. Specialized methods and procedures used in a particular field. The Technique of a novelist for instance requires characterization, the building of a conflict, the development of suspense, the writing of a dialogue. The technical performance of a poet is judged by his knowledge of diction, metre, rhythm."(3)

2. “The method, craft and skill of writing , Many literary terms are attempts to categorise and detail the innumerable methods by which writer create patterns, meanings and effects out of language. Every element in a literary work, other than its theme or message, is organised according to technical consideration. Often a belief in the naturalness or spontaneity of literary utterance leads to "technique" becoming a pejorative term, suggesting artificial and decorative effects. But though some FIGURE OF SPEECH are merely decorative, it is false to divide technique and meaning of any kind , without technique of some sort ,however rudimentary or invisible. For example, it would be absurd to say that a poet "uses imagery" in a particular poem (making imagery, sound like an additional, occasional device available to the poet) when that poem consists chiefly of its own imagery." (4)

    مندرجہ بالا تعریفوں کا گہرا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ تکنیک صرف ایسی مہارت یا ہُنر مندی نہیں جو تخلیق کے ظاہری خد و خال کی سج دھج میں تخلیق کار کی معاونت کرتی ہے بل کہ مواد کی ترتیب اور خیال کی بُنت میں بھی برابر شامل رہتی ہے۔ اس لحاظ سے تکنیک کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کرنا شاید نا مناسب نہ ہو گا لیکن یہ بات پیشِ نظر رہنی ضروری ہے کہ خارجی اور باطنی تکنیک کے باہمی ربط سے ہی تکنیک کی غرض و غایت اور مقصدیت کا کامل اظہار ممکن ہے۔ خارجی تکنیک میں زبان کا شعور، الفاظ کا چناؤ، قواعد کی پابندی، ترتیب و تہذیب اور دیگر آرائشی عناصر کا فن کارانہ استعمال شامل ہے اور باطنی تکنیک تخلیق کار کے ذہن، مزاج، علم اور اس کے طبعی رجحان کو محیط ہے۔ فن پارہ داخلی اور خارجی تکنیکوں کے باہمی ملاپ سے قدرو قیمت کا حامل ٹھہرتا ہے کیوں کہ صرف ظاہری تکنیک خیال اور مواد سے بے تعلق رہ کر تصنع اور بناوٹ کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور اس میں جذبے کا وہ خلوص اور تخیل کی وہ رعنائی شامل نہیں ہو پاتی جو تخلیق کی درجہ بندی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر اُردو غزل کی تاریخ میں ناسخؔ، انشا اللہ خان انشاؔ اور شاہ نصیرؔ جیسے اساتذہ علم و فضل میں اپنے تمام ہم عصروں میں بلند مرتبہ رکھتے تھے انہوں نے غزل کی تخلیق میں ظاہری تکنیک کے لیے جو محنت کی ہے اس کا اندازہ ان کی غزلیں دیکھ کر بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔ زبان کے کامل شعور، لفظ کے گہرے ادراک اور آرائشی عناصر کے فن کارانہ استعمال کے باوجود ان کی تخلیقات مصنوعی اور بناوٹی نظر آتی ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ ان اساتذہ کی تمام تر توجہ خارجی تکنیک پر مرکوز رہی اور داخلی تکنیک سے اغماض کے نتیجے میں ان کا کلام تخلیقی سرشاری سے محروم ہوا ہے۔ اسی طرح محض باطنی تکنیک پر توجہ مرکوز رکھنے سے بھی جو نتیجہ نکلتا ہے وہ اس سے مختلف نہیں ہوتا۔

    فنون کو عام طور پر دو قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے، اوّل عمومی فنون جن میں سنگ تراشی، تعمیر، نقاشی اور اس قبیل کے دوسرے فنون شامل ہیں، دوم خصوصی فنون جنہیں فنونِ لطیفہ کا نام دیا جاتا ہے ان میں موسیقی، مصوری، شاعری کے علاوہ رقص اور خطاطی کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ ہر دو قسم کے فنون کی تشکیل میں تکنیک بنیادی اور اساسی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے تاہم دونوں قسم کے فنون میں اس کی حیثیت مختلف ہوتی ہے۔ عمومی فنون میں جس تکنیکی جوہر کی ضرورت ہوتی ہے وہ کسب اور مشق و مزاولت سے پیدا کیا جا سکتا ہے جب کہ فنونِ لطیفہ کا تکنیکی جوہر تخیل کی جلوہ گری سے نمو پذیر ہوتا ہے اور محض کسب یا مشق سے ہاتھ نہیں آتا؛ البتہ ریاضت اس جوہر کو نکھارنے کا سبب بنتی ہے۔ تخلیق کاروں میں تکنیکی جوہر مختلف درجے کا ہوتا ہے اور اسی درجے کی مناسبت سے تخلیق کاروں کے مقام و مرتبہ کی تعیین ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو تکنیک بہ یک وقت دو اہم فریضے انجام دیتی ہے یعنی ایک تو مواد(خیال) کی مؤثر پیش کش اور دوسرا تخلیق کار کے مقام و مرتبہ کا تعین۔ تکنیک کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ تمام تخلیقی عرصے[ یعنی خیال کی ترتیب و تہذیب سے لے کر اس کی تشکیل و اظہار تک] پر محیط ہوتی ہے اور فن کی آفرینش کا کوئی لمحہ اس کے وجدانی اثر سے خالی نہیں ہوتا۔ تکنیک کی ظاہری اور باطنی جہتیں مل کر فن پارے کو حسن کا شہ کار بناتی ہیں۔ کروچے کا یہ خیال کہ ’’ حسن درحقیقت اظہار کا نام ہے ‘‘(۵) تکنیک کا صرف خارجی زاویہ پیش نہیں کرتا بل کہ اس میں تکنیک کے داخلی پہلو کی کرشمہ سازی بھی جھلکتی ہے کیوں کہ تکنیک کے یہ دونوں پہلو ہم آہنگ ہو کر ہی فن پارے کے حسن کا سبب ٹھہرتے ہیں۔


٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                      ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول