صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


غزل کا فنّی سفر۔۔ حالی سے اقبال تک

ارشد محمود  ناشاد


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

باب (۱)

    انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں برصغیر پاک و ہند سماجی اور سیاسی تبدیلیوں سے دوچار ہوا۔۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی میں ہندوستانیوں کی ناکامی نے انہیں اس درجہ شکستہ اور نڈھال کر دیا کہ وہ ایک طویل عرصہ تک زندگی کے منظر نامے میں فعال کردار ادا کرنے کی صلاحیت سے محروم رہے۔ جاگیردارانہ نظام کے زوال اور مشینی دور کے آغاز نے تہذیب و تمدن کی اُس بساط کو لپیٹ دیا جو ہندوستان کی مختلف قوموں کے میل جول اور قرب و یگانگت کے باعث وجود پذیر ہوئی تھی ۔ اس معاشرتی انقلاب کے باعث مذہبی اور اخلاقی قدریں تغیر آشنا ہوئیں ، فکر اور اندازِ فکر کے زاویے بدلنے لگے اور پُرانے مسائلِ حیات کی جگہ نئے مسائل نے لے لی۔ بدلتے ہوئے اس منظر نامے میں حدود و قیود کے بند ٹوٹے اور نئے تجربات کے در وا ہونے لگے۔اس موڑ پر زندگی کے باقی شعبوں کی طرح ادب کی اخلاقیات، نظریات اور موضوعات میں بھی تغیر و تبدل کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ اظہار کے نئے سانچوں اور بیان کے نئے قرینوں کو استعمال کرنے کا شوق بے دار ہوا ۔ادب کے رنگِ جدید کی تعمیر و تشکیل میں انگریزی تعلیم و ادب نے نمایاں حصہ لیا۔ علی گڑھ اور انجمنِ پنجاب کی تحریکوں نے جدید رنگِ ادب کو روشناسِ خلق کرنے میں مؤثر کردار ادا کیا ۔ چوں کہ ان تحریکوں کی اساس مغربی فکر و نظر پر اٹھائی گئی تھی اس لیے ان تحریکوں نے نئی نسلوں کو مشرقی طرزِ احساس سے کافی حد تک بے گانہ کر دیا۔

        اردو ادب بالخصوص شاعری کو اس نئے ماحول سے ہم آہنگ کرنے میں جس شخص نے سب سے اہم کردار ادا کیا وہ مولانا الطاف حسین حالی (۱۸۳۷ء تا ۱۹۱۴ء) تھے ۔ مشرقی علوم و فنون کا شناور اور عاشق ہونے کے باوجود انہوں نے نئے رجحانات اور جدید افکار کو خوش آمدید کہا اور زمانے کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اپنے ادب و شعر کے ”فرسودہ“ اور ” کہنہ“ لباس کو تبدیل کرنے کی سعی کی ۔ اعتدال سے بڑھی ہوئی اس سرگرمی کے نتیجے میں وہ نشانۂ ملامت اور ہدفِ تنقید ٹھہرے اور روایت آشنا حلقوں نے ا ن کی ” اصلاحات “کا مذاق اڑایا تاہم ان کی نیک نیتی اور اخلاص کی بدولت ان کی اصلاحات نے مخالفتوں اور رکاوٹوں کے بند توڑ کر مقبولیت حاصل کی اور ایک زمانے کو اپنا ہم نوا بنا لیا۔حالی کی ذہن سازی میں ان کے فطری رجحانِ طبع کا عمل دخل سب سے نمایاں ہے۔ وہ ابتدا سے ہی ” دُر مَع الدّہرکیفِ  دار“ کے قائل تھے اور طرزِ کہن پہ اڑنا ان کے مسلک کے خلاف تھا۔ مبالغہ اور اغراق سے ان کی طبیعت گھبراتی تھی اور سادگی و صاف بیانی ان کے نزدیک کلام کا بنیادی وصف تھی۔ حالات کی نا ہمواری نے ان کے دل کو گداز کر دیا تھا ۔ دہلی میں تعلیم کے دوران میں جب کہ وہ میدانِ سخن میں نووارد تھے اور ”خستہ “ تخلص کرتے تھے،مرزا اسد اللہ خان غالب سے متأثر ہو کر ان کے حلقۂ شاگردی میں آ گئے اگرچہ بہ قول ان کے یہ شاگردی ان کے حق میں زیادہ سود مند ثابت نہ ہوئی تاہم اسی وسیلے سے انہیں نواب مصطفی خان شیفتہ کے قریب آنے کا موقع ملا؛ حالی آٹھ سال تک شیفتہ کے بچوں کے اتالیق رہے؛ شیفتہ کی صحبت نے ان کی فطری اصلاح پسندی، صاف بیانی اور سادہ گوئی کو مزید جلا بخشی؛ ان اثرات کا ذکر حالی کی زبانی سُنیے:

”(شیفتہ) مبالغہ کو ناپسند کرتے تھے اور حقائق و واقعات کے بیان میں لطف پیدا کرنا اور سیدھی سادی اور سچی باتوں کو محض حسنِ بیان سے دل فریب بنانا، اسی کو منتہائے کمالِ شاعری سمجھتے تھے۔ چھچھورے اور بازاری الفاظ و محاورات اور عامیانہ خیالات سے شیفتہ اور غالب دونوں متنفر تھے۔۔۔۔ ان کے خیالات کا اثر مجھ پر پڑنے لگا اور رفتہ رفتہ ایک خاص قسم کا مذاق پیدا ہو گیا۔“ (۱)


    نواب شیفتہ کے انتقال (۱۸۶۹ء) کے بعد تلاشِ معاش انہیں لاہور لے آئی جہاں وہ گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازم ہو گئے۔ یہاں ان کا کام انگریزی کتابوں کے اردو تراجم کے الفاظ و محاورات، اسلوبِ بیان اور عبارت کی درستی تھا ۔ انگریزی کتب سے اس ربط ضبط ، مولانا محمد حسین آزاد کی صحبت اور انجمنِ پنجاب سے وابستگی نے ان پر نئی دُنیا کے دروازے کھول دیئے۔ مغربی افکار کی ” چکا چوند“ نے انہیں ایسا اپنی طرف مائل کیا کہ قدیم مشرقی ادب سے بے تعلقی پیدا ہونے لگی،انہوں نے خود لکھا ہے کہ:

”انگریزی لٹریچر کے ساتھ فی الجملہ مناسبت پیدا ہو گئی اور نامعلوم طور پر آہستہ آہستہ مشرقی لٹریچر اور خاص کر فارسی لٹریچر کی وقعت دل سے کم ہونے لگی۔


٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول