صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


غالب تنقید


جاوید رحمانی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

محمد حسین آزاد

 محمد حسین آزاد کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے اور کثیر التصانیف بھی۔ لیکن ان کی اصل شہرت ’آبِ حیات‘ سے ہے۔ آزادؔ۱۰ جون ۱۸۳۰ء کو پیدا ہوئے۔ان کے والد مولوی محمد باقر تھے جو شمالی ہند کے پہلے اردو اخبار کے مدیر تھے۔ آزادؔ کا خاندان ایران سے واردِ ہندوستان ہوا۔ چناں چہ ’’خاندانی زبان فارسی ہی رہی لیکن عوام سے اختلاط اور ضروریاتِ زندگی کی وجہ سے اردو سے بتدریج لگاؤ بڑھتا گیا‘‘۔۲؂ مولوی محمد باقر ذی علم ہی نہیں ، ذی حیثیت بھی تھے اور روشن خیال بھی۔ مولوی محمد باقر کی روشن خیالی ہی تھی جو ان کے اور مولوی جعفر علی کے درمیان مناظرے کی شکل میں ظاہر ہوئی، جس نے مولوی محمد حسین آزادؔ کو مذہبی تعصبات سے آزاد کیا۔ ڈاکٹر محمد صادق لکھتے ہیں :’۱۸۴۷ء یا اس کے لگ بھگ سترہ برس کی عمر میں آزادؔ تلامذہ اور اساتذہ کے اس حلقۂ خاص میں شامل ہوئے ، جو اس وقت شمالی ہند میں بہترین خیال کیا جاتا تھا۔ یہ زمانہ کالج کے انتہائی عروج کا تھا جب کہ طلبہ جوق در جوق چلے آ رہے تھے۔۔۔ جب آزادؔ نے داخلہ لیا تو اس کے بعد ان کے باپ اور مولوی جعفر علی میں ، جو کالج میں شعبۂ قانون کے مدرس تھے اور ان کے دوست تھے ، ایک زبردست مذہبی مباحثہ شروع ہو گیا۔۔۔ جس میں مولوی باقر پر باقاعدہ کفر کا فتویٰ عائد کیا گیا ہے کیوں کہ راسخ العقیدہ شیعہ ان کے عقائد کو فاسد خیال کرتے تھے۔۔۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا بحث و تکرار میں بیش از بیش تندی اور تیزی پیدا ہوتی گئی۔ اس نے دہلی کے شیعوں کو دو مخالف فریقوں میں تقسیم کر دیا۔۔۔ غالباً اپنے والد کی تحریک پر وہ (آزادؔ) بھی اس بحث میں کود پڑ ے اور کلاس میں مولوی جعفر علی سے چناں و چنیں شروع کر دی۔ فاضل مدرس کو مولوی باقر سے دو دو ہاتھ کرنے میں کوئی تامل نہ تھا۔ لیکن اس نئے محاذ سے وہ بہت جزبز ہوئے۔ پہلے تو انھوں نے اس کی کوئی پروا نہ کی، لیکن رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ سٹپٹا اُٹھے اور آزادؔ کے خلاف بے ادبی اور گستاخی کی شکایت کر دی۔۔۔ آزادؔ کی خوش قسمتی تھی کہ پرنسپل صاحبِ نظر اور با ذوق آدمی تھا۔۔۔ اس نے رفعِ شر کے لیے آزادؔ کو سنّی فقہ کی کلاس میں بھیج دیا جہاں انھیں مولوی سیّد محمد سے سنّی دینیات مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔۔۔ اب تک وہ شیعہ روایات میں کھوئے رہتے تھے۔ اب انھیں یہ موقع ملا کہ وہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھیں۔ انھوں نے محسوس کیا کہ مذہبی تعصبات کس قدر لایعنی ہوتے ہیں ‘‘۔۳؂
 آزادؔ کا تعلیمی سفر نہایت شاندار رہا۔ انھوں نے کالج میں اپنی علمی فتوحات کا لوہا منوا لیا تھا جس کا اندازہ ان کے پرنسپل کی رپورٹوں سے ہوتا ہے۔۴؂ آزادؔ نے دہلی کی علمی و ادبی فضا سے بھی گہرا اثر قبول کیا۔ وہ اسی ماحول کے پروردہ تھے جس کے بارے میں حالیؔ نے لکھا ہے :’’اگرچہ جس زمانے میں پہلی ہی بار راقم کا دلی جانا ہوا، اس باغ میں پت جھڑ شروع ہو گئی تھی، کچھ لوگ دلّی سے باہر چلے گئے اور کچھ دنیا سے رخصت ہو گئے تھے مگر جو باقی تھے اور جن کو دیکھنے کا مجھ کو ہمیشہ فخر رہے گا وہ بھی ایسے تھے کہ نہ صرف دلّی سے بلکہ ہندوستان کی خاک سے پھر کوئی ویسا اٹھتا نظر نہیں آتا‘‘۔۵؂
 آزادؔ کی ذوقؔ سے بے پناہ عقیدت کا مسئلہ کافی متنازعہ فیہ رہا ہے۔ ڈاکٹر محمد صادق نے آزادؔ کے بیان کی روشنی میں لکھا ہے :
{’’آزادؔ نے بڑ ے ہو کر ذوقؔ کی شاگردی اختیار کی تو انھیں اپنی طبیعت کو جلا دینے کا اور بھی موقع ملا۔ جب دہلی کے حریفان کمال میں مقابلے ہوتے تو آزادؔ اکثر ذوقؔ کے ساتھ گلی کوچوں میں پھرتے ‘‘۔۶؂اور ڈاکٹر اسلم فرخی نے بھی لکھا ہے :’آزادؔ کی شعر گوئی کی ابتدا بھی استاد ذوقؔ ہی کی نگرانی میں ہوئی‘‘۔۷؂
اور ڈاکٹر مظفر حنفی نے بھی ساہتیہ اکادمی سے جو مونوگراف محمد حسین آزادؔ پر شائع کیا، اس میں لکھا ہے :’شاعری میں آزادؔ نے ذوقؔ کی شاگردی اختیار کر لی تھی۔۔۔ دیوانِ ذوق میں بیان کردہ واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ذوقؔ اپنے چہیتے شاگرد آزادؔ کا کتنا خیال رکھتے تھے۔ آزادؔ کی شامیں اور تعطیل کے دن ذوقؔ کی صحبت میں ہی بسر ہوتے تھے۔ اور وہ ان سے زبان و ادب کے رموز سیکھتے تھے۔۔۔ شیخ ابراہیم ذوقؔ کے۱۸۵۴ء میں انتقال کے بعد آزادؔ حکیم آغا جاں عیشؔ سے مشورۂ سخن کرنے لگے جس کا سلسلہ کم و بیش دو برس جاری رہا لیکن اپنی تحریروں میں آزادؔ نے خود کو تلمیذِ ذوق ہی لکھا ہے ‘‘۔۸؂
 لیکن عابد پیشاوری نے آزادؔ کے ذوقؔ سے تلمذ کو افسانہ بتایا ہے ان سے پہلے مرزا سعد الدین خلف ضیاء الدین احمد خاں کی ایک عبارت ایسی ملتی ہے جس سے عابد پیشاوری ان کے ذوق سے رشتۂ تلمذ پر سوالیہ نشان قائم کرتے ہیں۔۹؂ اور انجمن پنجاب کی آزاد کی نظموں (مثنویوں ) پر جو تنقیدیں ملتی ہیں ان میں سے ایک بیان اخبار ’پنجابی‘ سے نقل کرتے ہیں جس میں واضح طور پر انھیں ذوقؔ کا شاگرد ماننے سے انکار کیا گیا ہے۔ معترض نے اپنے نام کی جگہ ’ذوقؔ کا ادنیٰ شاگرد‘ لکھا ہے اور اڈیٹر نے اس پر ایک نوٹ لگایا جس میں لکھا ہے :’اعتراض مذکور اس قسم کے ہیں کہ ان سے بے تامل آزاد کی فصاحت اور بلاغت بلکہ علمیت پر حرف آتا ہے اور یہ بیان اس پر طرہ ہے کہ آزادؔ شیخ مغفور کے شاگرد نہیں جن کی شاگردی سے ان کو فخر تھا‘‘۔۱۰؂ عابد پیشاوری نے یہ مقالہ انتہائی جارحانہ انداز میں لکھا ہے۔ وہ جس طرح ہر بیان کے بین السطور سے کام لینے کی کوشش کرتے ہیں ، وہ بہت مناسب نہیں۔ یہ کتاب شروع ہی اس طرح ہوتی ہے :’آبِ حیات میں آزادؔ نے تقریباً ایک سو پندرہ مرتبہ ذوقؔ کا نام لیا ہے ، سب سے زیادہ خود ذوقؔ کے احوال میں۔ ہمیں محض نام لینے سے بحث نہیں بلکہ ان واقعات سے غرض ہے جو ذوقؔ سے روایت کیے گئے ہیں۔ ہمارا خیال ہے خود ذوقؔ کے احوال کے علاوہ جہاں کہیں ذوقؔ سے واقعات روایت کیے گئے ہیں ، وہ بعد کا اضافہ ہیں۔۔۔ شومیِ قسمت سے ہماری دسترس میں نہ ’آبِ حیات‘ کا مسودہ ہے اور نہ اس کا پہلا اڈیشن۔ اس لیے قطعیت سے کوئی حکم لگانا شاید غلط ہو، تاہم جن واقعات کے بارے میں بہ یقین علم ہے ، یا جن کے خلاف داخلی شواہد موجود ہیں ، ان کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ خود آزادؔ کے ذہن کی پیداوار ہیں۔ یہی حال ذوقؔ کو استاد کہنے کا بھی ہے۔ اکثر تو ان کے نام کے ساتھ استاد کا لفظ اس لیے آیا ہے کہ وہ استاد شاہ تھے اور جگت استاد کہلاتے تھے۔ کہیں کہیں صریحاً تلمذ کا پہلو بھی نکلتا ہے اور یہ انگریزی محاورے کے مطابق AFTER THOUGHT ہے۔ یہ بھی کچھ کم تعجب خیز نہیں ، جہاں ذوقؔ کو استاد کہنا چاہیے تھا، وہاں ایسا نہیں کیا گیا‘‘۔۱۱؂ عابد پیشاوری کی مراد اس ’’جہاں ذوق کو استاد کہنا چاہیے تھا‘‘ سے ذوقؔ کا ’’قطعۂ تاریخ‘‘ ہے جو آزادؔ نے کہا تھا۔ یعنی ’’تاریخ وفات میں استادی کی طرف اشارہ کرنے کا مناسب ترین موقع تھا‘‘۔۱۲؂ میرے خیال میں اس مقالے میں اس تعلق سے کام کی بات بس اتنی ہے :
’’محققین نے آزادؔ کے تلمذ کی بنیاد ان کے اس قول کو بنایا ہے : مجھے بیس برس تک اس طرح حضوریِ خدمت رہی ہے کہ ہر وقت پاس بیٹھ کر ظاہر و باطن کے فوائد حاصل کرتا تھا۔۔۔ بیس برس کی حضوری کو من و عن قبول کر لینا تحقیق و تدقیق کی آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہے۔ آزاد ۱۰/جون ۱۸۳۰ء کو پیدا ہوئے۔ ذوقؔ کا انتقال ۱۵ نومبر ۱۸۵۴ء کو ہوا۔ اس لحاظ سے ذوقؔ کی وفات کے وقت ان کی عمر ۴۲ سال ۵ مہینے اور ۵ دن ہو گی۔ اگر بیس برس کی حضوری کو درست مانا جائے تو یہ بھی ماننا ہو گا کہ ہر وقت پاس بیٹھ کر فوائد ظاہر و باطن حاصل کرنے کا یہ سلسلہ کم و بیش چار سال کی عمر سے شروع ہو گیا تھا، جو ممکن نہیں ‘‘۔۱۳؂ اصل میں محمد حسین آزادؔ ہو ں یا حالیؔ یا اس زمانے کے ہمارے دوسرے بزرگ، ان کی کمزوری یہ ہے کہ وہ documentation کے معاملے میں محتاط نہیں تھے۔ اور اس کمزوری کا ہمارے جدید محققوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ ان کی تصحیح تک تو کوئی مضائقہ نہ تھا۔ لیکن ان کا فائدہ اٹھا کر اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا عکس ان میں دیکھنے کی کوشش کی گئی اور اس فرضی جرم کی سزا انھیں دی گئی ایسی ہی کوشش سے عابد پیشاوری کی یہ کتاب عبارت ہے جس میں یہ تک کہا گیا:’ذوقؔ سے خواہ انھیں جس قدر رشد و ہدایت کی سعادت نصیب ہوئی ہو، شعر میں اصلاح لینے کی سعادت یقیناً ان کے حصے میں نہیں آئیں۔۔۔ ۱۸۵۷ء تک پہنچتے پہنچتے انھیں شاگردی کا خیال آ گیا تھا۔ شاید اس لیے کہ اس سے پہلے وہ دیوان کی ترتیب کا کام شروع کر چکے تھے (یا ارادہ تھا) اور اس کے لیے سند اعتبار کی ضرورت انھیں محسوس ہونے لگی تھی‘‘۔۱۴؂
گویا کسی کاروباری ضرورت کے تحت یہ سازش کی گئی۔ پھر تعجب کیا ہے جو گیان چند جین اپنے اس شاگرد خاص کی ذہانت کا قصیدہ پڑھتے نظر آتے ہیں۔ وہ اس کتاب کی بھی مبالغہ آمیز تعریف کرتے ہیں اور لکھتے ہیں :’اس سے پہلے وہ (ذوقؔ) دو سال سے حکیم آغا جان عیش سے مشورہ کرتے تھے۔ ۱۸۵۷ء میں آزادؔ نے طے کیا کہ وہ دیوانِ ذوق تیار کریں گے اور اس کے لیے خود کو ذوقؔ کا تلمیذ خاص لکھا لیکن عیشؔ کی شاگردی کو گول کر گئے ‘‘۔۱۵؂ یہ ہماری تحقیق کی ژرف بینی ہے جو اس طرح کے افسانے تراشتی ہے ہم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آزادؔ کے بیان میں ’’۲۰ برس کی حضوری، بے احتیاطی ہے۔ اسے منصوبہ بند سازش بتانا زیادتی ہے۔ ’’جدید ادب کے پس منظر میں اردو کی فکری تاریخ کا بہت اہم واقعہ ڈاکٹر لائٹز سے آزادؔ کی ملاقات ہے۔ ۱۸۶۴ء میں لائٹز گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل مقر ہو گئے تھے۔ پنجاب کے محکمۂ تعلیم میں آزادؔ کی ملازمت بھی یکم فروری ۱۸۶۴ء سے شروع ہوئی۔۔۔ محکمۂ تعلیم سے وابستگی کے بعد آزادؔ اور لائٹز کے تعلقات گہرے ہوتے گئے۔۔۔ جنوری ۱۸۶۵ء میں انجمن اشاعتِ مفیدہ کا قیام بھی اسی سلسلۂ تعلقات کی ایک کڑی ہے۔۔ ۱۸۷۴ء میں پنجاب کے ناظمِ تعلیمات کرنل ہالرائیڈ کے تعاون سے آزادؔ نے نظم اردو کے اس مشاعرے کی بنیاد رکھی جس سے جدید شاعری کی روایت کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے ‘‘۔۱۶؂

٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول