صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
مرزا اسد اللہ خاں غالب کا خود نوشت خاکہ
ڈاکٹر اشفاق احمد ورک
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غالب کا خود نوشت خاکہ
میں ترک قوم کا سلجوقی ہوں۔ دادا میرا ماورا النہر سے شاہ عالم کا نوکر ہوا۔ ایک پرگنہ سیر حاصل ذات کی تنخواہ اور رسالے کی تنخواہ میں پایا۔ بعد انتقال اس کے جو طوائف الملوک کا ہنگامہ گرم تھا، وہ علاقہ نہ رہا۔ باپ میرا عبداللہ بیگ خاں بہادر عرف میرزا دولہ لکھنؤ جا کر نواب آصف الدولہ کا نوکر رہا۔ (3) پانچ برس کی میری عمر تھی کہ .... مہاراجا بختاور سنگھ بہادر کی رفاقت میں مارا گیا۔ سرکار سے میرے باپ کی تنخواہ میرے نام پر جاری ہوئی اور ایک گاؤں جس کا تالڑا نام ہے، مجھ کو برائے دوام ملا۔آپ یوں سمجھیے کہ ادھر دودھ پینا چھوڑا اور راج کی روٹی کھائی۔ (4) نصر اللہ بیگ خاں بہادر میرا حقیقی چچا مرہٹوں کی طرف سے اکبر آباد کا صوبہ دار تھا، اس نے مجھے پالا.... بمرگ ناگاہ مر گیا، رسالہ بر طرف ہو گیا، ملک کے عوض نقدی مقرر ہو گئی.... 1830ء میں کلکتے گیا۔ نواب گورنر سے ملنے کی درخواست کی۔ دفتر دیکھا گیا۔ میری ریاست کا حال معلوم کیا گیا۔ ملازمت ہوئی، سات پارچے اور جیفہ، سرپیچ، مالائے مروارید، یہ تین رقم خلعت ملا۔ (5) عمر بھر نوکری کی تو بہادر شاہ سے نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ خطاب پایا۔ کچھ دنوں بادشاہ کا مصاحب رہا، پھر استاد کہلایا۔ دنیا دار نہیں فقیر ہوں بہت سی عزت اور تھوڑی سی دولت چاہتا ہوں۔ (6) مکان گھر کا نہیں، کرائے کی حویلی میں رہتا ہوں۔ (7)
میں ایک شخص گوشہ نشین، فلک زدہ، اندوہ گیں، نہ اہل دنیا، نہ اہل دیں۔ (8) ایک سپاہی زادہ، ہیچ مداں اور دل افسردہ و رواں فرسودہ۔ ہاں، ایک طبع موزوں اور فارسی زبان سے لگاؤ رکھتا ہوں۔ (9) ابتدائے فکر سخن میں بیدل و اسیر و شوکت کے طرز پر ریختہ لکھتا تھا.... پندرہ برس کی عمر سے پچیس برس کی عمر تک مضامین خیالی لکھا کیا۔ دس برس میں بڑا دیوان جمع ہو گیا۔ آخر جب تمیز آئی، تو اس دیوان کو دور کیا۔ اوراق یک قلم چاک کیے۔ (10) نہ سفیہ ہوں کہ ہجو میں سخن سرائی کروں، نہ فقیہ ہوں کہ بحث میں زور آزمائی کروں۔ غریب الوطن سپاہی زادہ ہوں، فلک زدہ، خانماں بہ باد دادہ ہوں۔ تابِ آفتاب حوادث سے ظل اللہ کے سایۂ دیوار کی پناہ میں بیٹھا ہوں، گویا ایک تھکا ہوا مسافر ہوں کہ آرام کی جگہ دیکھ کر دم لینے کو راہ میں بیٹھا ہوں۔ (11)
میرا قد بھی درازی میں انگشت نما ہے ....جب میں جیتا تھا تو میرا رنگ چنپئی تھا اور دیدہ ور لوگ اس کی ستایش کیا کرتے تھے۔ اب جو کبھی مجھ کو اپنا رنگ یاد آتا ہے تو چھاتی پر سانپ سا پھر جاتا ہے۔ ہاں! مجھ کو رشک آیا اور میں نے خون جگر کھایا تو اس بات پر کہ داڑھی خوب گھٹی ہوئی ہے، وہ مزے یاد آ گئے۔ کیا کہوں جی پر کیا گزری؟ بقول شیخ علی حزیں:
تادسترسم بود، زدم چاک گریباں
شرمندگی از خقۂ پشیمنہ ندارم
جب داڑھی مونچھ میں بال سفید آ گئے، تیسرے دن چیونٹی کے انڈے گالوں پر نظر آنے لگے۔ اس سے بڑھ کر یہ ہوا کہ آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے، ناچار مِسّی بھی چھوڑ دی اور داڑھی بھی۔ (12) نہ آزاد ہوں، نہ مقید، نہ رنجور ہوں نہ تندرست، نہ خوش ہوں نہ ناخوش، نہ مردہ ہوں نہ زندہ، جیے جاتا ہوں، باتیں کیے جاتا ہوں، روٹی روز کھاتا ہوں، شراب گاہ گاہ پیے جاتا ہوں.... نہ شکر ہے نہ شکایت ہے، جو تقریر ہے بہ سبیل حکایت ہے۔ (13) دنیا دار نہیں، مکار نہیں، خوشامد میرا شعار نہیں، جس میں جو صفات دیکھتا ہوں، وہ بیان کرتا ہوں۔ (14) فقیر میں جہاں اور عیب ہیں، ایک یہ بھی عیب ہے کہ جھوٹ نہیں بولتا۔ (15) حساب سے میر اجی گھبراتا ہے اور مجھ کو جوڑ لگانا نہیں آتا ہے۔ (16) بارہ برس کی عمر سے نظم و نثر میں کاغذ مانند اپنے نامۂ اعمال کے سیاہ کر رہا ہوں .... اور کی فیض رسانی اور قدر دانی کو کیا روئیں؟ اپنی تکمیل ہی کی فرصت نہیں۔ (17) اپنا نام بدل کر مغلوب رکھ لیا ہے۔ (81) خاکسار نے ابتدائے سن تمیز میں اُردو زبان میں سخن سرائی کی ہے۔ پھر اوسط عمر میں بادشاہِ دہلی کا نوکر ہو کر چند روز اسی روش پر خامہ فرسائی کی ہے۔ نظم و نثر فارسی کا عاشق اور مائل ہوں، ہندوستان میں رہتا ہوں مگر تیغ اصفہانی کا گھائل ہوں۔ جہاں تک زور چل سکا، فارسی زبان میں بہت کچھ بکا۔ اب نہ فارسی کا فکر، نہ اُردو کا فکر۔ (19) ا فسوس کہ میرا حال اور یہ لیل و نہار، آپ کی نظر میں نہیں، ورنہ آپ جانیں کہ اس بجھے ہوئے دل اور اس ٹوٹے ہوئے دل اور اس مرے ہوئے دل پر کیا کر رہا ہوں۔ اب نہ دل میں وہ طاقت، نہ قلم میں زور، سخن گستری کا ایک ملکہ باقی ہے، بے تامل اور بے فکر جو خیال میں آ جائے، وہ لکھ لوں ورنہ فکر کی صعوبت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ (20)
میرا قصد سیاحت کا ہے پنشن اگر کھل جائے گا تو وہ اپنے صرف میں لایا کروں گا۔ جہاں جی لگا، وہاں رہ گیا، جہاں سے دل اُکھڑا، چل دیا.... عاشقانہ اشعار سے مجھ کو وہ بُعد ہے جو ایمان سے کفر کو۔ گورنمنٹ کا بھاٹ تھا، بھٹئی کرتا تھا، خلعت پاتا تھا۔ خلعت موقوف، بھٹئی متروک، نہ غزل، نہ مدح، ہزل و ہجو میرا آئین نہیں۔ بوڑھے پہلوان کے سے پیچ بتانے کو رہ گیا ہوں، اکثر اطراف و جوانب سے اشعار آ جاتے ہیں، اصلاح پاتے ہیں۔ (1 2) خدا کا احسان ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا، جو اطراف و جوانب سے دو چار خط نہیں آ رہتے ہوں، بلکہ ایسا بھی دن ہوتا ہے کہ دو دو بار ڈاک کا ہرکارہ خط لاتا ہے، ایک دو صبح کو، ایک دو شام کو، میری دل لگی ہو جاتی ہے۔ دن ان کے پڑھنے اور جواب لکھنے میں گزر جاتا ہے۔ (22) جس طرح امرا واسطے فقرا کے وجہ معاش مقرر کر دیتے ہیں۔ اسی طرح اس سرکار (سرکار رام پور) سے میرے واسطے مقرر ہے۔ ہاں فقیر سے دعائے خیر اور مجھ سے اصلاحِ نظم مطلوب ہے۔ چاہوں دلی رہوں، چاہوں اکبر آباد، چاہوں لاہور، چاہوں لوہارو، ایک گاڑی کپڑوں کے واسطے کروں، کپڑوں کے صندوق میں آدھی درجن شراب دھروں، آٹھ کہار ٹھیکے کے لوں، چار آدمی رکھتا ہوں، دو یہاں چھوڑوں، دو ساتھ لوں، چل دوں.... گاڑی ہو سکتی ہے، شراب مل سکتی ہے، کہار بہم پہنچ سکتے ہیں، طاقت کہاں سے لاؤں؟ (23) میں شاعر سخن سنج اب نہیں رہا، صرف سخن فہم رہ گیا ہوں.... بناوٹ نہ سمجھنا، شعر کہنا مجھ سے بالکل چھوٹ گیا ہے۔ اپنا اگلا کلام دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ میں نے کیونکر کہا تھا۔ (24) پچاس برس اس شیوے کی ورزش میں گزرے، اب جسم و جاں میں تاب و تواں نہیں۔ (25) خدا سے بھی توقع باقی نہیں، مخلوق کا کیا ذکر؟ کچھ بن نہیں آتی، آپ اپنا تماشائی بن گیا ہوں۔ رنج و ذلت سے خوش ہوتا ہوں، یعنی میں نے اپنے آپ کو اپنا غیر تصور کیا ہے، جو دکھ مجھے پہنچتا ہے، کہتا ہوں کہ لو غالب کے ایک جوتی اور لگی۔ بہت اِتراتا تھا کہ میں بڑا شاعر اور فارسی دان ہوں، آج دور دور تک میرا جواب نہیں۔ لے اب قرض داروں کو جواب دے۔ (26) ناسازئ روزگار و بے ربطیِ اطوار، بطریق داغ بالائے داغ، آرزوئے دیدار، وہ دو آتش شرارہ بار اور یہ ایک دریائے نا پیدا کنار، وقِنا ربّنا عذاب النّار۔ (27)
٭٭٭٭٭٭٭